عظمیٰ ویب ڈیسک
لہیہ/لداخ میں ریاستی درجہ اور چھٹے شیڈول کے تحت آئینی ضمانتوں کے مطالبے پر گزشتہ کئی ماہ سے جاری عوامی احتجاج بدھ کو پرتشدد رخ اختیار کر گیا۔ لہیہ شہر میں ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر شدید نعرے بازی کی۔ اس دوران احتجاج اچانک تشدد میں بدل گیا، جب مشتعل مظاہرین نے بی جے پی کے ضلعی دفتراور پولیس گاڑی کو نذرِ آتش کر دیا اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر سنگباری کی۔پولیس نے مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ تاہم کئی مقامات پر ہجوم کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی ہے۔
لداخ کے عوام 2019 سے ریاستی درجہ اور آئینی ضمانتوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو تقسیم کر کے لداخ کو ایک الگ یونین ٹریٹری بنایا گیا، جو براہ راست مرکز کے زیرِ انتظام آ گئی۔ اس فیصلے کو ابتدا میں لہیہ کے کئی حلقوں نے خوش آئند قرار دیا تھا، لیکن محض ایک برس بعد ہی عوام میں شدید ناراضگی ابھرنے لگی۔ مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کے تحت چلنے والے نظام میں عوام کو نمائندگی سے محروم کر دیا گیا ہے، جس سے ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے۔
یہی ناراضگی گزشتہ تین برسوں میں بڑھتے بڑھتے ایک بڑے احتجاجی رخ میں تبدیل ہوئی۔ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مل کر ’لہیہ ایپکس باڈی ‘اور ’کرگل ڈیموکریٹک الائنس ‘کے پلیٹ فارم پر اتحاد کیا اور ریاستی درجہ کے ساتھ چھٹے شیڈول کے تحت آئینی تحفظات کا مطالبہ تیز کیا۔
بدھ کو لہیہ شہر میں احتجاج کی کال کے بعد سیکڑوں مظاہرین جمع ہوئے۔ صبح کے وقت مظاہرہ پرامن انداز میں جاری تھا، لیکن دوپہر کو ہجوم نے بی جے پی کے دفتر کا رخ کیا اور وہاں زبردست توڑ پھوڑ کی۔ عینی شاہدین کے مطابق مشتعل مظاہرین نے دفتر کو آگ لگا دی اور پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس دوران ایک پولیس گاڑی کو بھی مکمل طور پر نذرِ آتش کر دیا گیا۔جوابی کارروائی میں پولیس نے آنسو گیس کے شیل داغے اور لاٹھی چارج کر کے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ شہر کے مختلف حصوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر ٹھپ ہو گئیں۔
ماحولیاتی کارکن اور سماجی رہنما سونم وانگچک پچھلے دو ہفتوں سے مسلسل بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ وہ لداخ کے عوام کے حق میں ریاستی درجہ اور چھٹے شیڈول کے تحت آئینی تحفظات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وانگچک نے ایک بیان میں کہا:’لداخ کے عوام کو اپنی زمین، وسائل اور ثقافت کے تحفظ کی ضمانت چاہیے۔ اگر مرکز نے ان مطالبات کو تسلیم نہ کیا تو خطے میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔‘وانگچک کی اس بھوک ہڑتال نے عوامی تحریک کو مزید تقویت دی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مرکز کی جانب سے گزشتہ برس ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ لداخ کے عوام کے مطالبات پر غور کیا جا سکے، تاہم اب تک ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔ اس سال مارچ میں لداخی نمائندوں نے نئی دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی، لیکن اس ملاقات کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔مرکز اور لداخی نمائندوں کے درمیان اگلی ملاقات 6 اکتوبر کو طے ہے۔ اس میٹنگ میں لہیہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے رہنما شامل ہوں گے۔ مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدھ کے پرتشدد احتجاج نے حکومت اور مقامی قیادت کے درمیان موجود خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔اگر آئندہ مذاکرات میں کوئی عملی پیش رفت نہ ہوئی تو خدشہ ہے کہ احتجاجی تحریک مزید شدت اختیار کرے گی اور لداخ میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔