محمد امین میر
جنوری 2022 میں جموں و کشمیر حکومت نے ایک تاریخی ریگولیشن متعارف کرایا،زرعی زمین (غیر زرعی مقاصد کے لیے تبدیلی) ریگولیشن، 2022۔ یہ قانون شفافیت، وضاحت اور معاشی جدیدیت کے لیے ایک سنگ میل سمجھا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ زرعی زمین کو بغیر اجازت اور بغیر فیس کے غیر زرعی استعمال میں منتقل نہ کیا جا سکے۔دہائیوں سے زمین کی یہ تبدیلیاں پردے کے پیچھے، خاموشی سے اور مقامی سطح پر کی جاتی رہیں۔ اب کاغذ پر تو کم از کم ایک ترتیب تھی،مگر تحصیل قاضی گنڈ کے گاؤں کوریگام میں قانون کی سیاہ تحریر حقیقت کی دھندلی تصویر سے ٹکراتی ہے۔
یہاں ایک مقامی شخص کی دو کنال آبی اول زمین (بہترین سیراب شدہ کھیت) ریکارڈ میں تو زرعی ہے، لیکن اس نے پورے رقبے پر مٹی ڈال کر ہموار کر دیا۔ بظاہر زمین اب کھیتی کے بجائے تعمیر کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ مگر اس نے صرف ایک کنال کے لیے چینج آف لینڈ یوز (CLU) سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور اب دوسری کنال کے لیے بھی درخواست دے دی ہے۔یہاں سے سوال اٹھتے ہیں کہ کیا دونوں کنالوں پر مٹی ڈال دینا ہی زمین کی تبدیلی کے مترادف ہے؟یا تبدیلی صرف اس وقت کہی جائے گی جب زمین غیر زرعی مقصد کے لیے استعمال ہو؟اور سب سے ا ہم بات یہ کہ کیا دوسری کنال کے لیے اب اجازت دی جا سکتی ہے؟یہ سوال صرف ایک شخص کا نہیں بلکہ پورے جموں و کشمیر میں اس قانون کی تشریح اور اطلاق کا امتحان ہے۔2022 کا ریگولیشن: جہاں وضاحت ہے اور جہاں خاموشی یہ ریگولیشن، زمین داری قانون کی دفعہ 133۔اے کے تحت بنایا گیا، اور اس میں واضح دفعات ہیں:(۱) درخواست کا طریقہ – مالک کو آن لائن فارم پُر کر کے جمعبندی، گرداوری اور کھسرہ منسلک کرنا ہوگا۔(۲) ڈسٹرکٹ کلیکٹر کا اختیار – 12.5 معیاری ایکڑ تک تبدیلی کی اجازت دے سکتا ہے۔(۳) فیس – زمین کی مارکیٹ ویلیو کا 5 فیصد۔(۴) مدت – 30 دن میں فیصلہ؛ ایک سال کے اندر استعمال ضروری، زیادہ سے زیادہ دو سال تک توسیع۔(۵) 400 مربع میٹر کی شرط – ایک کنال سے زائد رہائشی زمین کے لیے لازمی CLU۔(۶) عدم استعمال کی صورت – مقررہ وقت میں استعمال نہ ہونے پر اجازت ختم۔لیکن قانون میں ایک اہم سوال پر خاموشی ہے۔کیا صرف زمین پر مٹی ڈال دینا ہی تبدیلی کہلائے گا؟یہی خاموشی کوریگام کیس کی جڑ ہے۔
تبدیلی یا استعمال؟ اصل قانونی نکتہ :
یہ کیس ہمیں ایک باریک مگر اہم فرق پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔عمل کے ذریعے تبدیلی – اگر زمین کو بھرنا یا سطح کو بدلنا تبدیلی ہے تو دونوں کنال پہلے ہی غیرقانونی طور پر بدلے جا چکے ہیں۔استعمال کے ذریعے تبدیلی – اگر تبدیلی صرف اس وقت شمار ہوگی جب زمین پر تعمیر یا کاروبار شروع ہو، تو دوسری کنال اب بھی زرعی ہے اور اسے باضابطہ بدلا جا سکتا ہے۔بھارت کی کئی ریاستوں میں عدالتیں زیادہ تر ’’استعمال‘‘ کو اصل پیمانہ مانتی ہیں، لیکن جموں و کشمیر کا یہ نیا قانون اس پر واضح نہیں۔کیا دوسری کنال کی اجازت دی جا سکتی ہے؟قانون الگ الگ درخواستیں دینے کی اجازت دیتا ہے۔فیس دوبارہ دینے سے حکومت کو نقصان نہیں ہوگا۔جب تک تعمیر نہیں ہوئی، زمین کاغذی ریکارڈ میں زرعی ہی ہے۔بیک وقت دونوں کنال بھر دینا غیرقانونی تبدیلی سمجھی جا سکتی ہے۔مالک کی نیت پر سوال ہے کہ اس نے پہلے زمین بدلی اور پھر ٹکڑوں میں درخواست دی۔ایسا فیصلہ دوسروں کو بھی ہمت دے گا کہ پہلے کھیت بدلیں اور بعد میں باقاعدہ کریں۔
ماہرین کی رائے :
ریٹائرڈ ریونیو افسر:’’تبدیلی استعمال میں ہے، مٹی ڈالنے میں نہیں۔ جب تک تعمیر نہیں، زمین زرعی ہے۔‘‘
وکیل، اننت ناگ:’’مالک کی نیت درست نہیں دکھتی۔ کلیکٹر اجازت دے سکتا ہے لیکن عدالت میں چیلنج کامیاب ہو سکتا ہے۔‘‘
سینئر بیوروکریٹ، سرینگر:’’یہ فیصلہ ایک نظیر بن جائے گا۔ لوگ پہلے کھیت بھر کر بعد میں مرحلہ وار درخواستیں دیں گے۔‘‘
کوریگام سے آگے:وسیع تر سوال۔یہ مسئلہ صرف دو کنال کا نہیں۔ پورے کشمیر میں زرعی زمین دباؤ میں ہے:شہری توسیع سری نگر، سوپور اور اننت ناگ میں کھیت نگل رہی ہے۔ہائی وے کے کنارے تعمیرات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔آرٹیکل 370 کے بعد قیاس آرائیاں زمین کو سرمایہ کاری کے محفوظ ذریعہ کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
یہ ریگولیشن اس رجحان کو منظم کرنے کے لیے تھا، روکنے کے لیے نہیں۔ لیکن اگر اس میں جھول دکھائی دیے تو اس کی ساکھ متاثر ہو گی۔
پنجاب و ہریانہ – تبدیلی تعمیر پر مانی جاتی ہے، لیکن بغیر اجازت زمین بھرنے پر جرمانہ ہوتا ہے۔مہاراشٹر – عدالتوں نے کہا ہے نیت اور سطح کی تبدیلی بھی غیرقانونی ہو سکتی ہے۔کرناٹک – زمین بھرنا بھی خلاف ورزی ہے، پہلے جرمانہ اور پھر اجازت۔جموں و کشمیر نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا کہ وہ کس راستے پر چلے گا۔
جب کوریگام کیس کلیکٹر کے سامنے آئے گا تو فیصلے میں درج ذیل سوال اہم ہوں گے:قانون کی تحریر – کیا قانون ٹکڑوں میں درخواست دینے سے روکتا ہے؟ (نہیں)
قانون کی روح – کیا مالک نے جان بوجھ کر مرحلہ وار درخواست دے کر عملے کو چکمہ دیا؟انصاف – انکار کرنے سے کیا مالک کے ساتھ ناانصافی ہوگی؟ریونیو – اجازت دینے سے حکومت کو فیس ملے گی۔پیغام – کیا یہ دوسروں کے لیے غلط مثال قائم کرے گا؟
قانونی طور پر تو مالک دوسری کنال کے لیے اجازت حاصل کر سکتا ہے، مگر نیت اور ’’قانون کی روح‘‘ پر سوال باقی ہیں۔یہ کیس دراصل اس بڑے سوال کی نشاندہی کرتا ہے:
کیا تبدیلی مٹی بھرنے سے ہوتی ہے یا زمین کے حقیقی استعمال سے؟جب تک حکومت واضح نہیں کرے گی یا عدالت فیصلہ نہیں سنائے گی، ہر کیس ایک الگ سودے بازی رہے گا۔یوں کوریگام کا یہ معاملہ محض ایک گاؤں کی کہانی نہیںبلکہ اس سوال کا عکس ہے کہ آنے والے برسوں میں کشمیر زرعی کھیتوں کو بچائے گا یا بنیادوں میں ڈھال دے گا۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کا ایک مختصر کالمی ورژن بھی تیار کروں تاکہ یہ کشمیر عظمیٰ کے ادارتی صفحے پر زیادہ فٹ بیٹھ سکے؟
[email protected]>