شامتِ شاہراہ
وسیم فارو ق
بچپن میں جب انگریزی زبان کے مضمون میں ہمیں محاورے پڑھائے جاتے تو ’’apple of one’s eye‘‘میرا پسندیدہ محاورہ ہوا کرتا۔ آنکھوں اور سیب کا کیا تعلق ہے ؟یہ میں کبھی سمجھ نہیں پایا، اگر کسی شے کے محبوب ہونے پر یہ محاورہ دلالت کرتا ہے تو پھر اس محاورے میں کسی پھول یا حسین نظارے کا ذکر بھی ہوتا تو چلتا ۔ لیکن ذکر ایک پھل کا اور وہ بھی ایسا پھل کہ جو ہمارے خطے کی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تو صاحبان !! دنیا کے دیگر خطوں میں لوگ اس محاورے کی تُک پراب تک سر دھن بھی رہے ہوں لیکن میں بخوبی محسوس کرتا ہوں کہ ہماری آنکھوں کو سیب ہی بھاتا ہے اور بھانا بھی چاہئے ۔
لیکن یہ خوبصورت اور مٹھاس سے بھر پور پھل جہاں ہمارے لئے معاشی خوشحالی کی نوید لیکر آتا ہے وہیں یہی پھل جب کاشتکار کے گرد ڈھیروں کی صورت پڑا رہتا ہے تو نہ صرف کاشتکار بلکہ ہر کشمیری کو زار و قطار رلاتا بھی ہے۔
شومئے قسمت ! سیب اگانے والے کاشتکار کے لیے اصل امتحان باغ میں نہیں بلکہ شاہراہ پر شروع ہوتا ہے۔ درخت پر لٹکا ہوا سیب خوشنما احساس دیتا ہے، مگر جب وہ ڈبے میں بند ہو کر ٹرک میں ڈالا جاتا ہے تو کاشتکار کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ٹرک دہلی پہنچے گا یا رام بن کے ناکے پر اٹک جائے گا، اس کا فیصلہ صرف ’’شاہراہ‘‘نامی فلسفی خاتون کے ُموڈ پر منحصر ہے۔
یہ شاہراہ کبھی برف کے ایک تودے سے بند ہو جاتی ہے، کبھی بارش کے چند قطروں سے، اور کبھی محض اس لیے کہ’’مرمت جاری ہے‘‘۔
مرمت ایسی کہ پانچ گھنٹے کا کام پانچ ہفتوں تک کھینچ جاتا ہے۔ عوام چیختی ہے، مگر میڈم شاہراہ کسی نک چڑھی گھر والی کی مانند کہتی ہے:
’’میں آزاد ہوں، جب چاہے ،منہ بسورکر تمہارا قافیہ حیات تنگ کر دوں ، اور جب چاہے ِکھل کِھلا کر تمہاری دنیاداری کو بحال کردوں ۔‘‘
یوں لگتا ہے جیسے اس شاہراہ نے ٹرانسپورٹروں کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ جوں ہی میوہ کی ترسیل کا سیزن آتا ہے، شاہراہ نخرے دکھانے لگتی ہے اور ٹرانسپورٹر کرایے دوگنے کرنے لگتے ہیں۔
غریب کاشتکار نے سال بھر کھیت میں محنت کی۔ کھاد خریدی، مزدور بلائے، قرضے لیے، دعائیں مانگیں۔ اب جب سیب تیار ہوا تو اس کا خواب تھا کہ دہلی، ممبئی اور کولکتہ کی منڈیوں میں یہ سونے کے بھاؤ بکے گا۔ لیکن کرایے کا حساب دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔پہلے ستر اسی روپے میں فی ڈبہ سیب دہلی پہنچتا تھا۔ اب وہی ڈبہ دو سو بیس روپے کھا جاتا ہے۔ کاشتکاربچارا اسی سوچ میں گم ہے کہ ’’یہ میرا سیب دہلی جا رہا ہے یا فرست کلاس فلائٹ میں لندن کیلئے گامزن ؟‘‘
ٹرانسپورٹروںنے اس کاروبار کو سلطنت میں بدل دیا ہے۔ ایک طرف کاشتکار کی جیب خالی ہو رہی ہے، دوسری طرف ٹرانسپورٹر کی تجوریاں بھرتی جارہی ہیں۔ سیب ڈھونے والی ٹرکوں کے پیچھے ’’ماشاء اللہـ، اللہ مالک‘‘ لکھا ہوتا ہے اور آگے ڈرائیور سیٹ پر بیٹھا مسکرا رہا ہوتا ہے، اور یہ نظارہ کاشتکار کے دل پر آری کا کام کررہا ہوتا ہے۔
حکومت ہمیشہ کی طرح بیان جاری کرتی ہے،’’کاشتکاروں کو نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘مگر یہ بیان اتنا ہی مضبوط ہے جتنا پنتھیال کی ڈھلان ،جو ہر بارش کے ساتھ کھسک کر شاہراہ پر آجاتی ہے۔
حکومت کا اصل حل یہ ہوتا ہے کہ ایک ’’کمیٹی‘‘ بنا دی جائے گی۔ کشمیر میں کمیٹی کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد۔ کاشتکار جب پوچھتا ہے:’’’میرا نقصان کون پورا کرے گا؟‘‘
تو جواب ملتا ہے:’’اللہ ہی مالک ہے۔‘‘
ہم عوام بھی عجب تماشائی ہے۔ ہم کاشتکار پر ترس کھا کے یہ تو کہتے ہیں ’’ہائے، اس کی محنت ضائع ہو گئی۔‘‘
لیکن اگلے ہی دن بازار جا کر سیب خریدتے ہوئے یہ دہائی دیتے ہیں’’سیب بہت مہنگے ہوگئے ہیں ، ہائے یہ سیب کے کاشتکار منافع خور بن گئے ہیں ‘‘
سیاست دان اس پورے کھیل کو ہنسی خوشی دیکھتے ہیں۔ اسمبلی میں اعلان کرتے ہیں’’کاشتکار ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔‘‘
اور دل ہی دل میں سوچتے ہیں،’’ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ بھی جائے تو ہمیں کیا؟ ووٹ کا وقت آئے گا تو دو نعرے مار لیں گے اور پھر سب ٹھیک۔‘‘
یوں سیاست دان، حکومت اور ٹرانسپورٹر تینوں خوش ہیں۔ غم صرف کاشتکار کے حصے میں آیا ہے۔
اس پورے کھیل میں جیت کس کی ہوئی؟
ٹرانسپورٹر نے دولت کمائی۔
سیاست دان نے ووٹ بچایا۔
حکومت نے کمیٹی تشکیل دے دی۔
عوام نے فیس بک پر ہیش ٹیگ چلایا۔
اور کاشتکار؟ اس کے پاس رہ گیا صرف درد، قرض، اور اگلے سال پھر اسی مصیبت کو گودلینے کی تیاری۔
[email protected]