عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/وادیٔ کشمیر اپنے قدرتی حسن و جمال اور ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ اپنی روایتی دستکاریوں کے لیے بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں مشہور ہے اورقالین بافی، پشمینہ اور لکڑی پر نقش و نگار کے ساتھ ساتھ “نمدہ سازی” بھی کشمیری تہذیب کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔نمدہ دراصل اون سے تیار ہونے والا ایک موٹا کپڑا ہے جو فرش پر بچھانے یا بستر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ دستکاری گھروں کی زینت ہوا کرتی تھی اور بڑی منڈیوں میں اس کی مانگ رہتی تھی، مگر آج یہ فن زوال کے دہانے پر ہے۔
نمدہ سازی ایک محنت طلب اور صبر آزما عمل ہے۔ سب سے پہلے بھیڑ کی اون کو صاف کرکے مخصوص طریقے سے دھویا جاتا ہے۔ پھر اسے پانی اور صابن کے ساتھ بار بار دبایا اور رول کیا جاتا ہے تاکہ وہ سخت ہوکر ایک ٹھوس کپڑے کی شکل اختیار کرے۔ جب نمدہ تیار ہوجاتا ہے تو اس پر ہاتھ سے رنگین کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ یہی کاریگری اسے منفرد اور دلکش بناتی ہے۔ لیکن اتنے طویل اور مشکل عمل کے باوجود کاریگروں کو اس کا معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔سری نگر کے نوہٹہ علاقے کے کاریگر بشیر احمد نے یو این آئی کو بتایا کہ وہ گزشتہ پچاس برسوں سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیںہم ایک نمدہ بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ پہلے ہمارے نمدے دہلی، ممبئی اور خلیجی ممالک تک جاتے تھے۔ خریدار قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مگر آج کے حالات میں ہماری محنت کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ کئی بار تو اتنا نقصان ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ ہنر چھوڑ ہی دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’سرکار نے بارہا وعدے کیے کہ نمدہ سازی سمیت روایتی فنون کو سہارا دیا جائے گا، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے بچے اب اس پیشے کی طرف نہیں آتے کیونکہ اس سے گھر کا خرچ نہیں چلتا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو چند برسوں میں نمدہ سازی کا نام بھی لوگ بھول جائیں گے۔‘
بشیر احمد بٹ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیںپائین شہر کے ہر محلے میں دس سے پندرہ نمدہ ساز ہوا کرتے تھے۔ ہر گھر میں یہ ہنر زندہ تھا، مگر آج پورے شہر میں نمدہ بنانے والے صرف چار کاریگر رہ گئے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کاروبار کس حد تک سکڑ گیا ہے اور ہمارا فن کہاں جا پہنچا ہے۔پرکھوں سے نمدہ سازی کے کاروبار سے وابستہ تاجر ارشید احمد نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدیم ہنر وادی میں آج بھی زندہ ہے، تاہم اس کے دائرے سکڑتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایانمدہ سازی کا کام آج بھی وادی میں جاری ہے لیکن یہ مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے، جس کے باعث وقت اور محنت دونوں درکار ہوتے ہیں۔ کاریگروں کی تعداد دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور اس وجہ سے نمدے کی دستیابی بھی محدود ہوگئی ہے۔انہوں نے کہامارکیٹ میں طلب کے باوجود ہنر مندوں کی کمی نے اس روایتی دستکاری کو متاثر کیا ہے۔آج کے دور میں مشینوں سے بنے قالین، کمبل اور دیگر اشیاء نے نمدہ سازی کو تقریباً بازار سے باہر کردیا ہے۔ عالمی منڈی میں مصنوعی مصنوعات کی دستیابی نے روایتی دستکاریوں کی مانگ کم کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاریگر اپنی محنت کا جائز معاوضہ حاصل نہیں کر پاتے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نمدہ سازی کو بچانے کے لیے اسے جدید مارکیٹ سے جوڑنے اور ای-کامرس کے پلیٹ فارمز پر لانے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں دستکاریوں کی مانگ موجود ہے، بس انہیں صحیح پلیٹ فارمز تک پہنچانے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
نمدہ سازی صرف ایک ذریعۂ روزگار نہیں بلکہ کشمیر کی ثقافت اور شناخت کا حصہ ہے۔ یونیسکو کے مطابق، کشمیری دستکاریاں عالمی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر نمدہ سازی ختم ہوگئی تو وادی ایک اور قیمتی ورثے سے محروم ہو جائے گی۔ثقافتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نمدہ سازی کو اسکولوں اور تربیتی مراکز میں پڑھایا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اس ہنر کی طرف راغب ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے سامنے نمدہ سازی کی نمائش کرکے اسے ایک “کلچرل پروڈکٹ” کے طور پر متعارف کرایا جا سکتا ہے۔وادی کے کئی لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مقامی عوام کو بھی اس ہنر کی اشیاء خریدنے اور استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اگر وادی کے باشندے خود نمدہ خریدنے لگیں تو کاریگروں کو سہارا مل سکتا ہے۔اس ہنر سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ صورتحال مایوس کن ہے مگر کئی کاریگر اب بھی پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت، سماج اور نجی ادارے مل کر منصوبہ بندی کریں تو نمدہ سازی دوبارہ اپنے سنہرے دور کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیری مصنوعات کی پہچان اب بھی موجود ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فن کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔
نمدہ سازی: وادیٔ کشمیر کا قدیم فن ہنوز باقی، مگر کاریگر مایوس
