غلام قادر جیلانی
قدرت نے انسان اور فطرت کے درمیان ایک نازک اور متوازن رشتہ قائم کیا تھا، جس کے تحت انسانی زندگی، جنگلات اور جنگلی حیات ایک پرامن نظام کا حصہ تھے۔ یہ نظام بغیر کسی تناؤ یا خطرے کے رواں دواں تھا، مگر انسان کی بڑھتی ہوئی لاپرواہی اور بے لگام لالچ نے اس توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف جنگلی جانوروں کا مسکن خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ انسانی آبادی بھی غیر متوقع خطرات اور خدشات کا شکار ہو گئی ہے۔کشمیر میں ہر سال انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم سے قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ کئی لوگ ہمیشہ کے لیے معذور اور اپاہج ہو کر رہ گئے ہیں۔
حال ہی میں بارہمولہ کے علاقے دود بگ کنڈی میں ایک انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا ہے، جب منظور احمد شیخ نامی شخص ریچھ کے حملے میں بری طرح زخمی ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب وہ اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ زخمی شخص کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ چند سال قبل منظور احمد کی بیٹی بھی اسی طرح کے ایک حملے میں اپنی جان گنوا چکی ہے۔ یہ واقعہ علاقے میں انسان اور جنگلی حیات کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کی ایک المناک مثال ہے۔اسی طرح کا ایک المناک واقعہ عشمقام اننت ناگ میں اس وقت پیش آیا جب منظور احمد میر نامی شہری ریچھ کے حملے میں زخمی ہوا جسے بعد میں علاج معالجہ کیلئے گورنمنٹ میڈیکل کالج اننت ناگ منتقل کیا گیا ۔ضلع میں یہ رواں مہینے کے دوران دوسرا واقعہ ہے۔ ان واقعات سے لوگوں میں وہاں خوف وہراس پھیل گیا۔
جنگلی جانور اور انسانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کی کئی اہم وجوہات ہیں، جن میں سرِ فہرست جنگلات کا بے تحاشا کٹاؤ اور جنگلی حیات کے قدرتی مسکن پر انسانی تجاوزات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، جنگلات کے قریب ہونے والی غیر قانونی تعمیرات بھی ان جانوروں کو انسانی آبادیوں کے قریب لانے پر مجبور کر رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، کئی دیگر عوامل بھی اس صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں ۔گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتے اکثر تیندووں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، جو خوراک کی تلاش میں بستیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ کئی علاقوں میں سیبوں کے باغات کی وسعت نے جنگلی جانوروں کو چھپنے اور رہنے کی جگہ فراہم کی ہے، جس سے وہ آسانی سے انسانی آبادی کے قریب آ جاتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ اور بچا ہوا کھانا کھلے میں پھینکنے سے جنگلی جانور، خاص طور پر ریچھ اور تیندوے، بستیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
ان تمام عوامل نے مل کر اس قدرتی توازن کو بگاڑ دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسان اور جنگلی جانور دونوں ہی خطرات کا شکار ہو رہے ہیں۔وادی کے معروف سماجی اور ماحولیاتی کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ کے مطابق، سری نگر ہوائی اڈے کے قریب بڈگام کے “کریواس” (Karewas) میں رہنے والے تیندوے اب ہر شام انسانی بستیوں میں آ کر کتوں کو شکار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ نے کہا کہ یہ علاقہ پچھلے 15 سال سے ان کا محفوظ ٹھکانہ بن چکا ہے۔ رہائشی ماحول میں تبدیلی اور انسانی آبادی سے قریبی تعلق کی وجہ سے اب ان کی وحشی خصلت باقی نہیں رہی، اور ان کا روایتی مسکن اب الپین فاریسٹس(AlpineForests) کے بجائے بڈگام اور کشمیر کے کریواس(Karewas) ہی بن گئے ہیں۔
بڈگام ضلع میںمحکمہ جنگلی حیات میں صرف 3مستقل اور 4روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین ہیں، جن کے پاس صرف ایک گاڑی ہے۔ ان محدود وسائل کی وجہ سے جب تک یہ عملہ چرار شریف اور کھاگ جیسے دور دراز علاقوں تک پہنچتا ہے، تب تک جنگلی جانوروں کے حملوں سے کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔بڈگام کے بیروہ، خانصاحب اور چرار شریف جیسے علاقوں سے جنگلی جانوروں کے حملوں کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں۔ اگرچہ محکمہ وائلڈ لائف نے ان حملوں کو روکنے اور جانوروں کو قابو میں لانے کے لیے قابلِ تعریف کام کیا ہے، تاہم افرادی قوت اور جدید آلات کی کمی ان کے کام میں بڑی رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔
مقامی لوگ اکثر شور شرابے اور پتھراؤ سے صورتحال مزید خراب کرتے ہیں، اس بد نظمی کی وجہ سے کئی افراد زخمی بھی ہوتے ہیں۔ یہ واقعات محکمۂ جنگلی حیات کے عملے کی تربیت اور تیاری کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ایک عہدیدارنے کہا ’’عملے کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا جانا چاہیے، اور فوری ردعمل کی ٹیمیں تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جو اچھی طرح سے تربیت یافتہ اور مناسب آلات سے لیس ہوں تاکہ وہ کسی بھی ابھرتے ہوئے خطرے سے فوری طور پر نمٹ سکیں‘‘۔
کشمیر میں بڑھتا ہوا انسان اور جنگلی حیات کا تصادم فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر بنیادی ڈھانچے، افرادی قوت اور تربیت میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو جنگلی جانوروں سے لوگوں کی حفاظت اور جنگلی حیات کا تحفظ دونوں خطرے میں رہیں گے۔ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم پائیدار حل کی فوری ضرورت کو نمایاں کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تصادم کی بنیادی وجہ جنگلی حیات کے مسکن کا خاتمہ ہے، لیکن یہ مسئلہ وسیع تر ماحولیاتی بگاڑ کی علامت بھی ہے، جس میں موسمیاتی تبدیلی اور جنگلات کا ناقص انتظام بھی شامل ہے۔جنگلی جانوروں کے حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کو حکومت کی جانب سے فوری اور بھرپور مالی امداد فراہم کی جانی چاہیے تاکہ ان کے علاج معالجے اور بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔
کشمیر میں انسان اور جنگلی حیات کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ شہری آبادی میں اضافے اور جنگلات کی بے تحاشا کٹائی کے باعث جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن سکڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ انسانی بستیوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں دلخراش واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
کشمیر کے دیہی علاقوں کےلوگ، جن کی بڑی تعداد کھیتی باڑی اور باغبانی پر انحصار کرتی ہے، اس خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ہے۔ خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہوئے، یہ لوگ حکومت سے ایک ایسے پائیدار حل کا مطالبہ کر رہے ہیں جو انہیں اپنے ارد گرد کی جنگلی حیات کے ساتھ پرامن طور پر زندگی گزارنے کے قابل بنا سکے۔
(مضمون نگارمدرس گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول زوہامہ ہیں)