۔80سال سے زیادہ عمر کے25فیصد لوگ متاثر،ملکی سطح سے 4فیصد زیادہ
پرویز احمد
سرینگر//آج21ستمبر کو (Deminitia) ’یاداشت میں کمی ‘ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ڈیمنشیا کوئی ایک بیماری نہیں ہے، بلکہ علامات کے ایک گروپ کے لیے ایک عمومی اصطلاح ہے، جیسے یادداشت، سوچ اور استدلال میں نمایاں کمی ہے، جس سے کسی شخص کی روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ علامات وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جاتی ہیں، اور بوڑھے بالغوں میں زیادہ عام ہے لیکن یہ عمر بڑھنے کا عام حصہ نہیں ہے۔ الزائمر کی بیماری سب سے عام قسم ہے، لیکن دیگر شکلیں موجود ہیں، بشمول عروقی ڈیمنشیا۔جموں و کشمیر میںبھارت کی مختلف ریاستوں میںیاداشت کھونے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ ہماچل پردیش، پنجاب،اتراکھنڈ، ہریانہ جیسی ریاستوںکو پیچھے چھوڑپہلے نمبر پر آگیا ہے۔ یہاں یاداشت کی کمی سے جوج رہے لوگوں کی شرح11.04فیصد ہے جو ہماچل پر دیش میں (8.43%)، پنجاب (5.19%)، اتراکھنڈ (6.27%) اور ہریانہ میں (5.78%) ریاستوںسے کئی فیصد زیادہ ہے۔ یہ بیماری جموں و کشمیر میں قومی سطح سے 4فیصد زیادہ ہے جبکہ جموں و کشمیر میں 2036تک یہ بیماری 14.82فیصد لوگوں کو متاثرکرسکتی ہے۔بھار ت میں عمر رسیدہ افراد میں یاداشت کی کمی کی بیماری کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ الزائمریاداشت کی کمی ہوتی ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی طور پر دماغ میں پروٹین جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ جموں و کشمیر میں 11.04 فیصد لوگوں میں سب سے زیادہ 25فیصد 80سال سے زائد کی عمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 60سے 64سال کے لوگوں میں 2.94فیصد،56سے 69سال میں4.01فیصد،70سے 74سال میں 10.30فیصد ،75سے 79سال میں13.14فیصد،80سے 84سال میں 16.25فیصد اور 84سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں 25فیصد متاثر ہوئے ہیں۔کشمیر میں نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعصابی نظام میں موجود خلیوں کا کنٹرول مکمل طور پر کھونے سے یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔کشمیر میں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز کے پروفیسر جنید نبی کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی طورپر نفسیاتی بیماری ہے جو ہماری یاداشت، سوچ اور دیگر معمول کی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بڑی علامتیں یاداشت کھونا اور سمجھ بوجھ میں کمی آنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیماری کی ابتداء میںپتہ لگنے پر اس کا علاج کیا جاسکتا ہے جوکہ دستیاب ہے، لیکن وقت گذرنے کیساتھ بعد میں اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جونہی کوئی مرد یا خواتین یاداشت کھو دیتے ہیں تو انکے سامنے جو بھی شخص موجود رہتا ہے وہ اسے پہچاننے سے انکاری ہوجاتے ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ سامنے والا شخص میرا بیٹا ہے یا خاوند، بہن یا بیٹی یا بہو۔