ندائے حق
اسد مرزا
وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025اس سال اپریل میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیا گیا اور لگتا ہے کہ یہ قانون مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کے لیے خدا کے بھیجے ہوئے انعام کے طور پر آیا، جس سے کہ وہ اپنی سیاسی دکانیں پھر چمکا سکیں۔ اس سے قبل اسی حکومت کی طرف سے تین طلاق کے معاملے پر مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) ایکٹ 2019 لا کر حکومت نے ہمارے رہنماؤں اور تنظیموں کو صحیح راستہ دکھایا تھا۔اس وقت بھی اور آج بھی ایسا لگتا ہے کہ مسلم قائدین یا تنظیمیں موجودہ دائیں بازو کی حکومت کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی ساکھ اور حتیٰ کہ قوت ارادی بھی کھو چکی ہیں۔ موجودہ کیس میں ان رہنماؤں نے عدالت عظمیٰ کے عبوری فیصلے کو مسلمانوں کی فتح قرار دیا ہے جبکہ موجودہ ایکٹ میں ابھی بھی ایسی لاتعداد شقیں موجود ہیں جو کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف اور ان کی وقف املاک کے خلاف جاتی ہیں۔
موجودہ حالات میں عدالت نے بجا طور پر پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی آئینی حیثیت کے تصور کے فلسفے پر زور دیا لیکن قابلِ غور ہے کہ انتہائی نوعیت کی متعصبانہ سیاست میں جمہوری نمائندے کسی بھی قانون کو غیر قانونی قرار دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس بنا پر حکومت کو پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگان اور اپوزیشن کے ساتھ لازمی بات چیت کرنی چاہیے تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ نافذ کیے گئے قانون کو وسیع تر سیاسی اور سماجی قبولیت حاصل ہے اور اس سے حکومتِ وقت کو کوئی بھی جانبدارانہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔اس کے ساتھ ہی اگر ہم یہ کہیں کہ اگر مئی 2025 یا اس سے پہلے، مسلم قائدین اور تنظیموں نے ملک بھر میں وقف املاک کے بہتر انتظام کے لیے ایک بلیو پرنٹ دیا ہوتا اور عدالت کے سامنے اس کی پاسداری کا عہد کیا ہوتا، تو کوئی بھی حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے اس طرح کے مسلم مخالف قانون کو منظور نہیں کروا سکتی تھی اور مسلم لیڈران ان تمام مسائل کو پہلے سے جانتے تھے، پھر بھی انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی اور اپنے گھٹنے ٹیکنے والے ردعمل کو جاری رکھا۔اس سے قبل طلاقِ ثلاثہ پر مسلم رہنما اور تنظیمیں ایک جھوٹی بنیاد پر کھڑے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے پیروکار یہ سمجھیں کہ وہ انہیں طلاق ثلاثہ کے معاملے پر گمراہ کر رہے ہیں اور جیسا کہ موجودہ معاملے میں خود ان میں سے بہت سے لوگ (افراد اور ادارے) پورے ملک میں وقف املاک پر قابض ہیں، وہ حکومت یا عدالتوں کو اس معاملے پر اپنے اخلاص کے بارے میں یقین دلانے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دی گئی پانچ رعایتوں پر یہ رہنما کیوں خوش ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا پہلا مشاہدہ ایکٹ کے سیکشن 3(R) کی فراہمی سے متعلق ہے، جس کے تحت کسی کو بھی وقف بنانے سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کم از کم گزشتہ پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ حصہ بذات خود شرارتی لگ رہا تھا، کیونکہ اس کا تعلق ایک مسلمان کی طرف سے وقف کرنے کی بنیاد سے ہے۔ مزید یہ کہ فی الحال حکومت کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے کہ کون کون سے مذہب کا دعویٰ کر رہا ہے، سوائے ذاتی اعلانیہ کے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور یہاں تک کہ دنیا بھر کی سب سے موثر حکومت یا بیوروکریسی بھی ایسا طریقہ کار وضع کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔سپریم کورٹ کا دوسرا مشاہدہ سیکشن 3C سے متعلق ہے، جس نے ضلع کلکٹروں کو یہ تعین کرنے کا اختیار دیا کہ آیا وقف کے طور پر دعویٰ کی گئی جائیدادیں حکومت کی ہیں یا مسلمانوں کی ہیں۔ عدالت نے اس شق پر روک لگا دی جو کلکٹر کے انکوائری مکمل کرنے سے پہلے ہی جائیدادوں سے وقف کا درجہ چھین لے گی، اسے ’’بنیادی طور پر صوابدیدی ‘‘قرار دیا۔ اس مشاہدے کو درحقیقت مسلم درخواست گزاروں کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس نے بیوروکریسی کے اختیارات کو کم کر دیا اور اس نے وقف املاک پر قبضہ کرنے کے حکومت کے مستقبل کے کسی بھی منصوبے کو بھی روک دیا۔اپنے تیسرے مشاہدے کے تحت، سپریم کورٹ نے سنٹرل وقف کونسل اور 11 ریاستی بورڈز کی فیصلہ سازی کی طاقت کو بجا طور پر متوازن کیا اور غیر مسلم اراکین کی تعداد کو اقلیتی درجہ تک محدود کیا۔دوسری طرف، عدالت نے ’’وقف از صارف ‘‘کی شق کو حذف کرنے کو برقرار رکھا، جس نے جائیدادوں کو بغیر رسمی دستاویزات کے دیرینہ مذہبی استعمال کی بنیاد پر وقف قرار دینے کی اجازت دی تھی۔ یہ مشاہدہ مکمل طور پر مسلم درخواست گزاروں کے خلاف جاتا ہے، جیسا کہ ہمارے ملک میں، بہت سی ایسی جائیدادیں ہوں گی جن کے پاس اپنے استعمال یا ملکیت کو ثابت کرنے کے لیے قانونی دستاویزات نہیں ہیں اور اس طرح کے زیادہ تر معاملات میں صارف یا قابض کو جائیداد کا مالک سمجھا جاتا ہے اور اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جائیداد کا استعمال کرے۔مزید برآں شریعت کے تحت کسی جائیداد کو اس وقت تک وقف املاک نہیں سمجھا جائے گا، جب تک اس کا استعمال اور ملکیت میں تبدیلی یا تو زمین کے قانون یا اسلامی قانون کے تحت قائم نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس شرارتی شق کو برقرار رکھ کر، ہم وقف ایکٹ کے مستقبل کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں عدالتِ عظمی کا حتمی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ جس طرح ملک کی عدلیہ نے موجودہ حکومت کے سامنے تقریباً پوری طرح گھٹنے ٹیک دئیے ہیں اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حتمی فیصلہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوگا اور نہ ہی اس قانون کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔آخر میں عدالت نے ان جائیدادوں کے لیے وقف کی حیثیت کو کالعدم قرار دینے کی دفعات میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا جو کہ تاریخی عمارتیں ہیں یا شیڈولڈ ٹرائب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان تاریخی عمارتوں کے بارے میں،عدالت نے نوٹ کیا کہ تاریخی عمارتوں کے ایکٹ پہلے سے ہی مذہبی آزادی کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیںجو مذہبی آزادی میں کوئی حقیقی کمی نہیں بتاتے ہیں۔ قبائلی زمینوں پر عدالت نے معاشرے کے ’’سب سے پسماندہ اور کمزور طبقوں میں سے ایک ‘‘کے تحفظ کے لیے آئینی ذمہ داری پر زور دیا اور مسلمانوں کے وقفوں کے لیے منتخب کردہ درخواست کے باوجود اس پابندی کو جائز قرار دیا۔لیکن اگر تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے ایکٹ 1904 یا تاریخی عمارتوں اور آثارِ قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ 1958 کے تحت وقف املاک کا غیرجانبدارانہ سروے کیا جاتا ہے جو کہ آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے تحت مینج کی جاتی ہیں تو یہ ظاہر ہوگا کہ ملک کی تین اہم عمارتوں جیسے کہ تاج محل، لال قلعہ ، قطب مینار کے علاوہ دیگر تاریخی عمارتیں بوسیدہ ہو رہی ہیں یا ان کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے۔ ہندوستان بھر میں بہت سی مساجد مسلمان نمازیوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں، یہاں تک کہ اگر وہ وہاں نماز ادا کر سکتے ہیں تو یہ صرف جمعہ کے دن ہے اور وہ بھی ASI (جیسے فیروز شاہ مسجد، ITO، دہلی) کو داخلہ فیس ادا کرنے کے بعد۔مزید یہ کہ کروڑوں میں حاصل ہونے والی آمدنی وقف کی دیگر تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال پر خرچ نہیں ہوتی۔ اطلاعات کے مطابق مرکزی وزارت ثقافت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تاج محل نے مالی سال 2023-24 کے ٹکٹوں کی فروخت میں تقریباً 98.7 کروڑ روپے کمائے۔ لال قلعہ نے ٹکٹوں کی فروخت سے 41.3 کروڑ روپے کمائے جبکہ قطب مینار نے
30.6 کروڑ روپے کمائے اور یہ دونوں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی عمارتوں کا درجہ رکھتی ہیں۔
درحقیقت جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ایکٹ کے خلاف تقریباً 65 درخواستوں میں سے تمام کا حتمی فیصلہ ہونے تک سپریم کورٹ کا جمود برقرار رہے گا اور اب مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کو یہ یقینی بنانے پر زور دینا ہوگا کہ کس طرح وہ اس قانون کی ایک دیگر متنازع اور غیر مسلم شقوں کے خلاف ماحول بنانے میں کامیاب رہتی ہیں۔اس کے لیے انھیں عدالتی راستے کے علاوہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی تحریکات شروع کرنی پڑیں گی۔اس پس منظر میں مسلم لیڈروں اور تنظیموں کے لیے یہ بہت اہم ہوگا کہ وہ اس ایکٹ کے خلاف متحد ہو جائیں، مشترکہ حکمت عملی بناکر اس پر عمل کریں اور فتح کی سچی نیت کے ساتھ قانونی جنگ لڑیں۔ آج مسلم کمیونٹی کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک متحد مسلم قیادت ہے جس کا مقصد کمیونٹی کی فلاح و بہبود سے ہونا چاہیے نہ کہ اپنی ذاتی فلاح و بہبود سے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار اور میڈیا کینسلٹنٹ ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)