سبدر شبیر
شہر کی سڑکیں ہمیشہ کی طرح شور و غل سے بھری تھیں۔گاڑیوں کے ہارن، ریڑھی والوں کی آوازیں، دکانوں کے اسپیکر۔ لیکن آج ایک اور صدا سب پر حاوی تھی موت کی خاموش چیخ، جو کسی نے سننی بھی نہ چاہی۔
ایک نوجوان، جیب میں دفتر کا پاس اور والدہ کی تصویر لئے، موٹر سائیکل پر دفتر جا رہا تھا۔ دل میں ایک چھوٹا سا خواب۔کل ترقی کا امتحان، والدہ کی خوشی، ایک معمولی سی امید۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے ٹکر مار دی۔ وہ ہوا میں اچھلا اور زمین پر گر پڑا۔ خون کی سرخ لکیریں فرش پر بکھر گئیں، سانسیں بے ربط، آنکھوں میں وحشت۔
“کوئی ہے؟ پلیز… مدد کرو…”
نوجوان کے دل میں ایک اور خیال، “کیا میری زندگی اسکرین پر بھی دکھائی جائے گی؟”
ہجوم جمع ہوا، مگر ہاتھ بڑھانے کے بجائے کیمرے آن کرنے میں مصروف تھے۔ موبائل کی روشنی نے رات کو دن بنا دیا، لوگ فوکس کر رہے تھے، لائیو جانے کی تیاری میں مصروف، بعض نے کالز کی آواز میں حیرت کے ساتھ تصویر لی۔
ایک بچہ چیخ کر آگے بڑھا:
“انکل! اسپتال لے چلو!”
لوگ مسکرائے، پھر دوبارہ اسکرینوں میں کھو گئے، جیسے حقیقت اور ورچوئل دنیا میں فرق ختم ہو گیا ہو۔
نوجوان کے دل میں ایک آخری سوال:
“کیا میری جان ایک ویڈیو سے بھی کم قیمت ہے؟”
پلکیں بوجھل ہوئیں، سانسیں مدھم ہوئیں اور کیمرے نے اس لمحے کو محفوظ کر لیا۔
ویڈیو اگلے دن وائرل تھی: “دل دہلا دینے والا حادثہ”۔ کمنٹس بھرے:
“افسوس ناک…”
“واہ، کمال فوٹیج!”
زندگی بچانے والے الفاظ صرف اسکرین پر، حقیقی دنیا میں خاموشی۔
شام کو والد اسپتال کے باہر بیٹھا تھا، ہاتھ میں آدھی جلی تصویر۔ یادیں سرایت کر رہی تھیں۔ پہلی بار جب بچہ دوڑتا ہوا گھر آیا، ماں نے اسے گود میں اٹھایا، وہ کل کی ہنسی آج کی چیخ میں بدل گئی۔ وہ بڑبڑاتا:
“لوگ تھے…بہت لوگ… کوئی بچا لیتا…”
دو دوست ویڈیو دیکھ رہے تھے۔ ایک نے کہا:
“ہم زندگیاں بچا سکتے تھے، لیکن بس ریکارڈ کیا۔”
دوسرا خاموش، نظریں جھکائے:
“ہماری آنکھوں میں انسانیت کی جگہ صرف اسکرین کا عکس رہ گیا ہے۔”
اسی دوران ہجوم میں ایک شخص نے ہمت کی اور آگے بڑھا۔ اس نے نوجوان کے قریب جا کر ہاتھ پکڑا اور موبائل کی روشنی میں اس کی آخری سانسوں کے درمیان زندگی کی ایک چھوٹی سی کرن پیدا کی۔
وقت گزرتا رہا۔ سڑکوں پر پھر شور، حادثہ، ہجوم، کیمرے آن۔
لیکن وہ لمحہ۔ ایک انسان نے انسانیت دکھائی۔قلبوں میں روشنی بن کر رہ گیا۔
���
اوٹو اہربل کولگام ،کشمیر
[email protected]