عبدالمجید بھدروارہی
سنوجی! مجھے آپ سے ایک ضروری شکایت کرنی ہے۔ میں کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ پہلے پوری طرح تحقیق کروں، پھر آپ سے بات کروں۔
میرے پرس، قمیض کی جیب یا الماری سے کبھی سو روپے، کبھی پچاس روپے، اور کبھی دو سو روپے غائب ہو جاتے تھے۔ میں یہ سمجھتی رہی کہ شاید میں نے کوئی چیز بازار سے خریدی ہو یا آن لائن منگوائی ہو۔ کئی بار تو میں اپنی یادداشت کو قصور وار ٹھہراتی تھی۔
لیکن آج معاملہ حد سے بڑھ گیا۔ میں نے اپنا پرس اور اے ٹی ایم کارڈ سرہانے رکھا اور نہانے کے لئے واش روم چلی گئی۔ واپس آئی تو موبائل پر میسج آیا۔ میں نے دھیان نہ دیا کیونکہ زیادہ تر فضول پیغامات ہی آتے ہیں۔ میں نے رامو کو چائے بنانے کے لئے آواز دی، مگر وہ کمرے میں نہیں تھا۔ میں نے خود چائے بنائی اور معاملہ ختم ہو گیا۔
جب بعد میں فون دیکھنے بیٹھی تو ایک بنک کا میسج نمایاں تھا۔ اکاؤنٹ سے بیس ہزار روپے نکل چکے تھے۔ میں حیران رہ گئی کیونکہ میں نے تو پیسے نکالے ہی نہیں تھے۔ یقین کرنے کے لئے دوبارہ میسج پڑھا، مگر بات بالکل صاف تھی۔ اب میرا شک حقیقت میں بدل چکا تھا۔
میں نے ساری بات پردیپ کو بتائی۔ اس نے کہا:
“رامو کو چند دن پہلے دس ہزار روپے کی سخت ضرورت تھی، کیونکہ اس کی بھانجی کی شادی تھی۔ ساتھ ہی وہ دس دن کی چھٹی بھی مانگ رہا تھا۔ بہتر ہے ہم رامو کو بلائیں، اس سے پیسے واپس لیں اور پھر اسے نوکری سے نکال دیں۔”
چنانچہ رامو کو بلایا گیا۔ پردیپ نے ڈانٹتے ہوئے کہا:
“رامو! تم نے میڈم کے اے ٹی ایم سے بیس ہزار روپے کیوں نکالے؟”
رامو گھبرا گیا اور بولا:
“جناب! میری بات سن لیجیے…”
پردیپ غصے سے چلایا:
“بکواس بند کرو! پہلے چھوٹی چھوٹی رقم اُڑاتے تھے اور آج ایک ساتھ بیس ہزار چرا لیے؟”
رامو بار بار صفائی دینے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پردیپ نے کہا:
“میں نے پولیس کو فون کیا ہے، وہ آتے ہی ہوں گے۔ ساری حقیقت وہیں بتانا۔”
تھوڑی دیر میں پولیس آ گئی۔ پردیپ نے افسر کو کہا:
“یہ ہمارا دس سال پرانا ملازم ہے، پہلے بھی چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا رہا ہے اور آج اس نے اے ٹی ایم سے بیس ہزار چرا لئے ہیں۔”
پولیس والے رامو کو پکڑنے لگے۔ رامو ہاتھ جوڑ کر بولا:
“جناب! صرف ایک بار میری بات سن لیجیے، پھر جو سزا دیں گے قبول ہوگی۔”
افسر نے کہا:
“اچھا، بولو!”
رامو نے کانپتی آواز میں کہا:
“یہ پیسے میں نے اپنی مرضی سے نہیں نکالے۔ مالکن نے ہی مجھے اے ٹی ایم دیا تھا کہ بیس ہزار روپے لاؤ۔ جب میں سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تو محلے کا امریش ہمارے گھر کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ اے ٹی ایم پر بھیڑ تھی، اس لئے مجھے واپس آنے میں دیر ہو گئی۔ جب لوٹا تو امریش گھر سے نکل رہا تھا اور اپنی قمیض ٹھیک کر رہا تھا۔ جناب! اصل بات یہ ہے کہ مالکن اور امریش کا پرانا چکر ہے۔ اکثر مجھے کسی نہ کسی بہانے باہر بھیج دیا جاتا تھا اور تب امریش اندر آ جاتا تھا۔ اگر یقین نہ ہو تو امریش کو بلا کر تفتیش کیجیے۔”
یہ سنتے ہی پولیس نے امریش کو بلوایا اور ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ سچ زیادہ دیر چھپ نہ سکا۔ امریش نے سب کچھ اگل دیا اور مان لیا کہ اس کا میڈم کے ساتھ تعلق تھا۔
کمرے میں ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛8825051001