عظمیٰ ویب ڈیسک
ریاض/بہت سے عرب ممالک جب اسرائیل سے بڑھتے ہوئے خطرے کو محسوس کر رہے ہیں تو اس ہفتے اعلان کیے گئے سعودی عرب اور پاکستان کے دفاعی معاہدے نے پاکستان کے ایٹمی تحفظ کو خطے کی سلامتی میں شامل کر دیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرزکی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدےنے مؤثر طور پر ریاض کے مالی وسائل کو پاکستان کی بڑی ایٹمی قوت رکھنے والی فوج سے جوڑ دیا ہے۔
معاہدے کی چند ہی تفصیلات سامنے آئی ہیں اور پاکستان کے سرکاری ایٹمی نظریے کے مطابق اس کے ہتھیار صرف اس کے دیرینہ مخالف ہندوستان کے خلاف ہیں۔ لیکن ریاض یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت اسے ایک غیر اعلانیہ ایٹمی ڈھال حاصل ہو جائے گی، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل (جو بڑے پیمانے پر مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی ریاست سمجھا جاتا ہے) اس صورتحال پر گہری نظر رکھے گا۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے رائٹرزکو بتایا کہ ایٹمی ہتھیار اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں، یہ معاہدہ دیگر خلیجی ممالک تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے، ہماری اس معاہدے کو جارحیت کے لیے استعمال کرنے کی کوئی نیت نہیں، لیکن اگر فریقین کو خطرہ لاحق ہوا تو یہ معاہدہ لازمی طور پر فعال ہو جائے گا۔خلیجی عرب ریاستوں نے کہا ہے کہ اسرائیل (جس نے کبھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی) نے قطر پر گزشتہ ہفتے حملے کے بعد خود کو براہ راست خطرہ ثابت کر دیا ہے، سعودی عرب نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کا حریف ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرتا ہے تو وہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔
جب رائٹرز نے پوچھا کہ آیا اب پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہے تو ایک سینئر سعودی عہدیدار نے کہا یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی ذرائع کو اپنے دائرے میں لیتا ہے۔ماہرین نے کہا کہ یہ معاہدہ اس امر کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں امریکہ کی فراہم کردہ سیکیورٹی پر اعتماد سکڑ رہا ہے۔لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مشرق وسطیٰ پالیسی کے سینئر فیلو حسن الحسن نے کہا کہ سعودی نقطہ نظر سے اس کا مقصد ایٹمی طاقت رکھنے والے اسرائیل کے مقابلے میں اسٹریٹجک اور روایتی دفاعی خلا کو پُر کرنا ہے۔
سعودی عرب کے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو ترقی دینے اور مشترکہ دفاع کو مضبوط کرنے کا مقصد رکھتا ہے، سعودی حکومتی میڈیا دفتر نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آیا پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اس معاہدے میں شامل ہیں۔واشنگٹن اور اسرائیل کے خارجہ پالیسی کے حکام نے بھی فوری طور پر تبصرہ نہیں کیا، یہ معاہدہ ہندوستان اور ایران میں بھی خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔
پاکستان اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت ہے، ایشیا کے غریب ممالک میں سے ایک ہے، لیکن اس کے پاس 6 لاکھ سے زیادہ فوجی ہیں، جو اپنے بڑے حریف ہندوستان کے خلاف دفاع پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کے ساتھ وہ 3 بڑی جنگیں لڑ چکا ہے۔پاکستان- ہندوستان کی بے شمار جھڑپیں، جن میں مئی میں ہونے والا 4 روزہ تصادم بھی شامل ہے، جو کئی دہائیوں بعد دونوں حریفوں کے درمیا سب سے شدید لڑائی تھی۔