شہاب حمزہ
اردو زبان کی شعری کائنات کے فلک پر عہد قدیم سے موجودہ دور تک بے شمار شعراء ستاروں کی مانند روشن ہیں ۔ جنہوں نے اپنے فکر و فن سے اپنے عہد میں شعر و ادب کے شاندار گلشن سجائے ہیں تو بعض ایسے بھی شاعر ہیں جنہوں نے جگر کے لہو سے گلشنِ ادب کی آبیاری کر کے شادابی عطا کی ہے۔ جہاں آج بھی محبانِ اردو روح کی تسکین تلاش کر لیتے ہیں۔ لیکن اردو شاعری کے آسمان پر ان تابندہ ستاروں میں بہت کم ایسے شعراء ہیں جن کے قلم کی نوک وقت کے نبض پر ہو، جو زمانے کے برلتے ہوئے تقاضوں سے آشنا ہوں، جو قدامت کی راہوں سے ہٹ کر اپنا نیا راستہ اختیار کرتے ہوں اور جو اپنے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہوں ۔ ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ شعر و ادب کے شائقین کو شاعروں، ادیبوں، نقادوں اور اہل قلم سے محض ادب کی سائے میں روح و قلب کی تسکین کا سامان نہیں چاہیے بلکہ زمانے کی سچائی کا عکس، حالات کے زخموں سے ٹپکتے لہو کے قطروں کا احساس اور وقت کی کروٹوں میں سماج کی متحرک تصویروں کی ان پہلوؤں کا مطالبہ بھی ہے جہاں انسانی زندگی وقت کے اشاروں پر رقص کرتی نظر آتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کوئی شاعر یا ادیب جدیدیت کا آسمان چاک کر کے اپنی خیالوں کی پرواز اس بلندی پر لے جائے جہاں وقت کے آغوش میں سماج کی سچی تصویروں کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے قلم کی جنبش سے زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکے ۔
آج کا یہ زمانہ جو جدیدیت کے دور سے آگے نکل رہا ہے، جھارکھنڈ کی سنگلاخ وادیوں سے تعلق رکھنے والے شاعروں میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دلوں کے خون سے وقت کی کروٹوں کو ، سماج کے احساسات کو افراد کی ذہنی تغیرات کو شعری پیکر میں ڈھال کر صفحۂ قرطاس پر تحریر کر کے تاریخ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ میری مراد اس عہد کے عظیم مفکر و شاعر دلشاد نظمی سے ہے جو کہ اپنی شاعری کے ذریعے یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ انہوں نے وقت کی دھڑکنوں کو پہچانا ہے اور جدید علامتوں کی شاعری کی ہے جہاں حقیقت بے حجاب زمانے کے سامنے جلوہ گر ہے۔ جہاں اگر ایک غریب انسان اپنے وجود کا احساس کر سکتا ہے تو ایک عورت اپنی حقیقتوں سے آشنا ہو سکتی ہے ۔ جہاں سماج کی متعدد شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار ، جہاں لڑکھڑاتے قدموں سے اندھے غار کی طرف بڑھتا ہوا سماج ، جہاں بے راہ روی کے شکار نئی نسلیں اپنے مستقبل کا احساس کر سکتی ہیں ۔ گویا دلشاد نظمی نے اپنی شاعری کی بدولت سماج کو وہ آئینہ عطا کیا ہے جس میں ہر فرد اپنے کردار کی جاگتی تصویریں دیکھ سکتا ہے ۔
چند ماہ قبل اس شاعر کی دو کتابوں کی شاندار رونمائی عمل میں آئی ۔ رانچی میں نوجوانوں کی فعال تنظیم انجمن فروغ اردو کے زیر اہتمام منعقد تقریب میں اردو شعری دنیا کو دو عظیم تحفے ’’کوئی ایک لمحہ رقم نہیں‘‘ اور’’ احتجاج لفظوں کا ‘‘ عطا کیا گیا ۔ ’’کوئی ایک لمحہ رقم نہیں‘‘ ان کی غزلوں کا وہ مجموعہ ہے جن کے اشعار زندگی کے حقیقتوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔ چونکہ گفتگو طویل ہو جائے گی لہٰذا میں ان کی ایک کتاب ’’احتجاج لفظوں کا‘‘ کے تعلق سے اپنے قلم کے سفر کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ ’’کوئی ایک لمحہ رقم نہیں‘‘کے تعلق سے پھر کبھی گفتگو ہوگی ۔ ’’احتجاج لفظوں کا‘‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے ۔ یہ محض لفظوں کا احتجاج نہیں بلکہ ایک عہد کی آواز ہے۔ ہمارے سماج کی وہ سچی تصویریں ہیں جس کی مصوری وقت اور حالات کا عرق نچوڑ کر کی گئی ہے ۔یوں تو دلشاد نظمی کی تخلیق ’’احتجاج لفظوں کا‘‘ کی تمام نظمیں کئی خوبیوں اور انفرادیت کے ساتھ جلوہ گر ہیں ۔ یہاں یہ کہنا لازمی ہے کہ دلشاد نظمی کی ان چند نظموں کا سرسری جائزہ لیا جائے جو قاری کے دلوں کو چھونے میں حد درجہ کامیاب نظر آتی ہیں ۔ ان کی مذکورہ کتاب کا سلسلہ ’’منٹو کے تعاقب میں‘‘ کے ساتھ شروع ہوتا ہے ۔ اس نظم میں انہوں نے ایک کردار کو کچھ اس طرح زندگی عطا کی ہے کہ ان کا یہ کردار ہمارے معاشرے اور سماج میں گردش کرتا نظر آتا ہے ۔ ’’بھوگ‘‘ جیسی نظم میں زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مندر جیسے مقدس مقام پر پجاری کی خواہشوں پر نہ صرف طنز کیا ہے بلکہ ذات پات پر اُلجھے معاشرے کو سبق دیتے نظر آتے ہیں ۔ ایک ایسی ہی نظم ’’انصاف‘‘‘ میں بدھوا اور کملا کے کردار کے ذریعے ظلم و زیادتی کے خلاف انصاف کی بھیک سے لے کر سماج کے ٹھیکے دار اور عدل کی ابتدائی سیڑھیوں پر دم توڑتے ہوئے انصاف کی خوب منظر کشی کی ہے۔ ’’رنگ‘‘ جیسی نظم میں رنگریز اور ان کے کاروباری چالوں اور سیاسی رنگریزی کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کنکریٹ کے صحرا یا دور افتادہ گاؤں قصبوں میں مذہبی سیاسی منافرت کو کیسے یک رنگی کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ ’’طلسم امروز‘‘ میں سڑکوں اور چوراہوں پر تماشے دکھانے والے سماج کے عام کرداروں کی بڑی سچی تصویر کشی کی ہے ۔ نہ صرف تماش بين اور جمورے کے درد کو بیان کیا ہے بلکہ ان کی خاموش حسرتوں کا وہ عکس بھی لفظوں کے پیرہن میں ظاہر کیا ہے۔ ’’یوم خواتین‘‘ عورتوں کے اس خاص دن پر لکھی گئی نظم ہے ،جو خواتین کی زبوں حالی اور استحصال کی حقیقتوں سے پردہ اُٹھاتی نظر آتی ہے ۔ نظم ’’ہومو سیکس‘‘ کے ذریعے انہوں نے ایک دس بارہ برس کے بچے کے درد کو بیان کرتے ہوئے معاشرے پر طنز کیا ہے اوریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ درسگاہوں سے اب وہ روشنی نہیں نکلتی جو معاشرے کو روشن کر سکے ۔انہوں نے مقدس درس گاہوں میں جنسی بے راہ روی کی منظر کشی کی ہے۔دانشورانہ پردے کا اہتمام کرتے ہوئے زمانے کو ان حقیقتوں سے آشنا کیا ہے ،جس کی نحوست سے ماضی میں کئی مضبوط قومیں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے مٹ گئیں۔ نظم ’’اسلام نگر‘‘ میں انہوں نے مسلم معاشرے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ جس کے پردے میں اجڑی ہوئی معاشرے کی سچی تصویریں رقص کرتی نظر آتی ہیں جو آج کی مسلم بستیوں اور محلوں کی حقیقتیں ہیں ۔ انہوں نے اس نظم میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی ہے کہ جس مذہب اورجس قوم کے ایمان کی بنیاد ہی نصف حصہ صفائی پر رکھی گئی ہے ،اُسی قوم اور معاشرے کی غلاظت کے سائے میں ایمان کی اس نصف حصے کی طرف از سر نو منظم تحریک کا اعلان بھی ہے ۔ ’’دیوار‘‘ ان کی ایک بہترین نظم جو اس کتاب میں شامل ہے ،جس کے ذریعے انہوں نے اپنی ہی خون کے رشتوں کے درمیان نفرتوں کے سائے میں بٹتی ہوئی تمام چیزوں کی منظر کشی کی ہے کہ کس طرح گھر کی آنگن میں اٹھتی ہوئی دیوار برسوں کی محبت کو اپنوں کے ذہن و دل کو بانٹ دیتی ہیں ۔ان کی نظم پیسنجر ٹرین ، آفس گرلز ، چوراہا ، چھکے ، منجری ، سرگم ، گم صم ، کینوس ، ہجڑوں کی سیاست ، تشنگی جیسی کئی نظمیں اپنے موضوعات کے اعتبار سے ہمارے ذہن و دل پر ایک چھاپ چھوڑنے میں اور ایک لمحے کے لیے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔ نصف شب ، بہروپ ، پراکرتی ، تماشہ، جنگل، آگ کا دریا، جیسی چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی اپنے اندر معنویت کا سمندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔ نظم ’’فاصلہ‘‘ میں خود حدِ ادب میں رہ کر شعر سخن پر اہم گفتگو پیش کی ہے اور شاعروں کو شاندار پیغام بھی دیا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں شامل نظم ’’ہجرت‘‘ میں کمال کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ہجرت کی وہ حالات اور درد کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور نظم اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ دو نسلیں ہجرت کی نئی سرزمین پر دفن ہو کر آج بھی مہاجر کے لقب سے اجنبی سرزمین پر جانی جاتی ہیں ۔ ’’شکچھا کے مندر کے باپو‘‘اس کتاب کی آخری نظم ہے جہاں بڑی بے باکی کے ساتھ انہوں نے مذہب کے پیشواؤں کی وہ تصویر پیش کی ہے جو یقینی طور پر عبرت کا مقام ہے اور معاشرے کو دعوت فکر دیتی نظر آتی ہے۔
الغرض دلشاد نظمی کی کتاب ’’احتجاج لفظوں کا‘‘جدید شعری خزانے میں ایک اہم اضافہ ہے جہاں اردو شاعری کے روشن ستارے ہر صفحے پر جلوہ گر نظر آتے ہیں ۔ تقریباً تمام نظمیں اپنے موضوع کے اعتبار سے لازوال ہیں ۔ یوں تو ان کی شاعری میں زمانے کے مسائل خواہ وہ اجتماعی ہو یا فرد واحد کی دشواریاں، ان کے اشعار میں سب نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا ایک اہم پہلو جو انہیں دوسرے شاعروں سے منفرد کرتا ہے، وہ ان کا انداز بیان، لفظوں کا اور موضوعات کا انتخاب ہے ۔ ان کی شاعری میں اگر زمانے کے مسائل ہیں تو امکانات کے وہ دریچے بھی کھلے نظر آتے ہیں جس سے آتی ہوئی روشنی میں مسائل کے حل تلاش کئےجا سکیں ۔ میں اس آخری بات پر اپنی گفتگو ختم کروں گا کہ کچھ ایک باشعور اور باذوق لوگوں نے بھی دلشاد نظمیں کی تصنیف ’’احتجاج لفظوں کا‘‘ کو صرف نثری نظم بتانے کی کوشش کی ہے ۔ میں ان کی یہ کتاب کم سے کم چھ سات بار پڑھا ہوں اور میں بڑے یقین کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ کتاب کے ہر مصرے میں نغمگی ہے، ترنم کی فراوانی ہے اور کوئی بھی مصرع بہر سے خارج نہیں ہے ۔ اس قبیل اور اس رنگ کی نظمیں شاذ و نادر ہی ادبی منظر نامے پر موجود ہیں۔ بہرحال میںیہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ دلشاد نظمی کے قلم سے اٹھنے والا لفظوں کا احتجاج مشعلِ راہ بن کر اردو شعری کائنات میں ہمیشہ روشن رہے گا ۔
رابطہ۔8340349807
[email protected]