مجموعی واقعات میںاموات کی شرح 24.13فیصد اور تقریباً 18 فیصد کو دائمی معذوری
بلال فرقانی
سرینگر// کشمیر میں ستمبر مہینہ آتے ہی اخروٹ اتارنے کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔لیکن اخروٹ جہاں سینکڑوں لوگوں کو مالی فوائد پہنچاتے ہیں وہیں غیر پیشہ وارانہ مزدوروں کی خدمات حاصل کر کے المناک حادثات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے ۔درختوں سے گر کر مزدوروں کی جانیں جانے کا سلسلہ ایک ایسے تکلیف دہ رجحان کا حصہ ہے جو ہر سال سامنے آتا ہے۔رواں ماہ کے دوران اب تک وادی میں اخروٹ اتارنے کے دوران مزدوروں کے گرنے کے افسوسناک واقعات پیش آئے ہیں، جن میں مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 6افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ یہ اموات محض چند دنوں کے اندر مختلف مقامات پر رپورٹ ہوئے ہیں۔ 7 ستمبر کو اننت ناگ کے چک اچھہ بل علاقے میں پہلا واقعہ پیش آیا، جہاں محمد رفیق ولد عبد العزیز نامی ایک مزدور اخروٹ کے درخت سے گر کر موقع پر ہی دم توڑ بیٹھا۔اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ 11 ستمبر کو پلوامہ میں پیش آیا، جہاں پرویز احمد خان ولد یاسین خان ساکن راجوری حال پیر پورہ آری ہل درخت سے گر کر شدید زخمی ہو گیا۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔13 ستمبر کو شوپیان کے علاقے رنگ مرگ سیدھو میں ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاںبشیر حسین بنیا ولد نور حسین بنیا ساکن ہیر پورہ اخروٹ کے درخت سے گر گیا جبکہ اس سے چند روز قبل بھی ضلع میں ایک ایسا ہی واقع پیش آیا۔ انہیں فوری طور پر سب ضلع ہسپتال شوپیاں لے جایا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔اس کے بعد 14 ستمبر کو کپوارہ کے شالی درگمولہ علاقے میں محمد اکبر ولد غلام نبی اخروٹ کے درخت سے گر کر زخمی ہوا۔ انہیں بھی طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم جانبر نہ ہو سکا۔16 ستمبر کو ترال کے برن پتھری ناگہ بل علاقے میں مختار احمد ولد عبدالرشید نامی ایک مزدور درخت سے گر کر جاں بحق ہو گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک خاندان کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوتے کہ کسی اور گھر کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
تحقیق
سکمز میڈیکل کالج سرینگر اور گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے ڈاکٹروں نے ایک جامع طبی تحقیق کے ذریعے اس خطرناک رجحان کو اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے کشمیر کے ایک بڑے ہسپتال میں 115 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا، جو اخروٹ کے درختوں سے گرنے کے باعث ہسپتال پہنچے تھے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان میں سے تقریباً تمام حادثات یعنی 94 فیصد، اگست سے اکتوبر کے درمیان پیش آئے، جو کہ اخروٹ اتارنے کے مصروف ترین مہینے ہیں۔ متاثرہ افراد میں اکثریت نوجوان اور جسمانی طور پر مضبوط مردوں کی تھی، جو دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور خاندانی آمدنی کے لیے اخروٹ چنائی میں مصروف تھے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان میں سے 54 فیصد سے زائد افراد کو صرف ہڈیوں کی نہیں بلکہ دیگر مہلک چوٹیں بھی آئیں، جن میں سب سے عام دماغی چوٹ (ہیڈ انجری) تھی، جو تقریباً 30 فیصد مریضوں میں پائی گئی۔ان افراد میں ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے کی چوٹیں، پاؤں کی ایڑی اور کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کے کیسز بھی بڑی تعداد میں ریکارڈ کیے گئے۔ ان زخمیوں میں کئی ایسے تھے جنہیں مستقل معذوری کا سامنا رہا، جبکہ کچھ کو طویل ہسپتال میں داخل رہنا پڑا اور مالی و نفسیاتی مشکلات جھیلنی پڑیں۔یہ تحقیق ایک بار پھر اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اخروٹ چنائی کے روایتی طریقے نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔ماہرین نے اپنی تحقیق میں زور دیا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ اخروٹ چننے کے عمل کو صرف زرعی سرگرمی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک خطرناک پیشہ ورانہ سرگرمی کے طور پر تسلیم کیا جائے، تاکہ اس سے منسلک مزدوروں کے تحفظ کے لیے جامع پالیسیاں وضع کی جا سکیں۔
اخروٹ کے درخت
ماہرین کا کہنا ہے اخروٹ کے درخت اپنی قامت اور ساخت کے لحاظ سے بلند و بالا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات 50 سے 80 فٹ تک بلند روایتی طریقہ کار کے تحت مزدور ان درختوں پر چڑھ کر شاخوں کو زور سے ہلاتے ہیں تاکہ اخروٹ زمین پر گریں۔ یہی مرحلہ اکثرخطرناک اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ایک معمولی لغزش، کوئی شاخ کا ٹوٹنا یا قدم پھسل جانا زندگی کے چراغ کو گل کر سکتا ہے۔رپورٹوں کے مطابق ہر سال درجنوں افراد زخمی ہوتے ہیں اور 10 سے 15 تک مزدور اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوتا ہے، جہاں اخروٹ کا موسم آمدنی کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن یہی ذریعہ ان کے لیے موت کا پیغام بھی بن سکتا ہے۔
سکمز کی سروے
شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ایمرجنسی و حادثاتی شعبے کی سروے نے ان واقعات کو محض حادثات نہیں بلکہ ایک سنگین’پیشہ ورانہ خطرہ‘ قرار دیا ہے، جس سے بروقت نمٹا جانا ناگزیر ہے۔یہ تحقیق ڈاکٹر سید اے تابش، رؤف اے، فاروق اے جان، طاہر رسول، امتیاز گیلانی اور بقّال ایم فاروق پر مشتمل ٹیم نے انجام دی ہے، جس میں ماضی میں اخروٹ کے درختوں سے گرنے والے تمام مریضوں کے کیس ہسٹریز کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔سب سے زیادہ متاثرین نوجوان اور جسمانی طور پر مضبوط مرد ہوتے ہیں، جو اخروٹ توڑنے کے لیے درختوں پر چڑھتے ہیں۔ ان میں سے 27.5 فیصد افراد گردن کی ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کا شکار ہوئے، جب کہ 26.43 فیصد کو دماغی چوٹ لگی ہوتی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ مجموعی اموات کی شرح 24.13 فیصد رہی، اور تقریباً 18 فیصد مریض دائمی معذوری (یعنی مکمل طور پر مفلوج) کے ساتھ زندہ بچتے ہیں۔تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ان ہلاکت خیز نتائج کی بڑی وجہ اخروٹ توڑنے کے روایتی اور غیر محفوظ طریقے ہیں، جن میں درختوں پر بغیر کسی حفاظتی سازوسامان کے چڑھ کر شاخیں ہلائی جاتی ہیں۔ماہرین نے اپنی تحقیق میںمتبادل سائنسی طریقوں کی تجویز بھی دی ہے، جن میں درخت پر 20 سے 30 فٹ کی بلندی پر مستحکم پلیٹ فارم کی تنصیب،نہ پھسلنے والے جوتوںکا استعمال اور حفاظتی بیلٹ، ہیلمٹ، سینہ و پیٹ کو محفوظ کرنے والے حفاظتی لباس شامل ہیں۔