احمد ایاز
تعارف:کشمیر کی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی
جموں۔سرینگر نیشنل ہائی وے (این ایچ-44) صرف ایک سڑک نہیں بلکہ کشمیر کی معیشت، روزمرہ زندگی اور سماجی رابطوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ شاہراہ وادی کو باقی ملک سے جوڑتی ہے اور روزانہ ہزاروں گاڑیاں اس پر گزرتی ہیں، جن میں اشیائے ضروریہ، زرعی پیداوار، سیاح، طلبہ اور مریض شامل ہیں۔تاہم، گزشتہ دو دہائیوں میں یہ شاہراہ ہر بار معمولی بارش، لینڈ سلائیڈنگ یا برفباری کے موقع پر بند ہو جاتی ہے۔ ستمبر 2025 میں ایک بار پھر ہزاروں گاڑیاں کئی دن تک پھنس گئیں، سیب کے ٹرک ضائع ہوئے، سیاح واپس لوٹے، اور مریض ایمرجنسی سہولیات تک نہ پہنچ سکے۔سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری اور برسوں کی منصوبہ بندی کے باوجود کشمیر کی یہ شہ رگ ہر سال کیوں بیٹھ جاتی ہے؟ جواب دہی کہاں ہے؟
بار بار کی رکاوٹوں کی وجوہات
لینڈ سلائیڈنگ اور پتھروں کا گرنا
رامبن، بانہال اور ادھم پور کے حصے سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ بارش یا برفباری کے بعد پہاڑوں سے پتھر اور مٹی گرنے لگتی ہے، جس سے شاہراہ بند ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وادی کو ہر موسم میں جوڑنے کے لیے کئی سرنگیں اور حفاظتی دیواریں تعمیر کی گئی ہیں، مگر یہ مسئلہ برقرار ہے۔ یہ ناقص منصوبہ بندی اور کمزور عمل درآمد کی عکاسی کرتا ہے۔
ناکافی دیکھ بھال اور نگہداشت
اربوں روپے کی تعمیر کے باوجود روزمرہ دیکھ بھال نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادھم پور کے تھارد علاقے میں معمولی بارش سے سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ صفائی، مرمت اور حفاظتی دیواروں کی دیکھ بھال میں تاخیر اس بحران کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
اقتصادی نقصان اور سپلائی چین کی خرابی
کشمیر کی سیب اور دیگر خراب ہونے والی فصلیں بروقت ترسیل نہ ہونے پر ضائع ہو جاتی ہیں۔ ٹرک جب ہفتوں تک پھنسے رہیں تو کسان کروڑوں کے نقصان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سیاح اپنی بُکنگ کینسل کرتے ہیں، ہوٹل اور مارکیٹ خالی رہ جاتے ہیں، اور دستکاریوں کی فروخت بھی متاثر ہوتی ہے۔ یوں نقصان کا سلسلہ معیشت کے ہر شعبے تک پھیل جاتا ہے۔
متبادل راستے کی کمی
مغل روڈ ایک موسمی متبادل ہے مگر بھاری گاڑیوں کے لیے ناکافی ہے۔ سرنگ کی تجویز برسوں سے صرف فائلوں میں ہے۔ جب تک یہ راستہ مکمل نہیں ہوتا، کشمیر کے پاس این ایچ-44 کے بند ہونے پر کوئی قابلِ اعتماد متبادل نہیں۔
کروڑوں روپے کہاں گئے؟
بڑے منصوبوں پر خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن نتیجہ مایوس کن ہے۔ چند اہم منصوبے درج ذیل ہیں:
ادھم پور۔رام بن (40.07 کلومیٹر) ۔1,758.68 کروڑ
رام بن۔بانہال۔ 1,623.98 کروڑ
بانہال بائی پاس (2.35 کلومیٹر)۔ 224.44 کروڑ
رام بن ویاڈکٹ (1.08 کلومیٹر)۔ 328 کروڑ
سرنگیں (21.5 کلومیٹر): اوپر کی لاگت میں شامل
ان سب کے باوجود شاہراہ پر بلا تعطل سفر ایک خواب ہی رہا۔
زمینی حقیقت: ستمبر 2025 کا واقعہ
نو دن تک ہزاروں گاڑیاں پھنسیں، سیب کے ٹرک ضائع ہوئے، سیاح واپس پلٹے اور مریض ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکے۔ ایمرجنسی سہولیات کی کمی، سپلائی چین میں خلل، دوائیوں اور خوراک کی تاخیر نے عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کیا۔ حفاظتی دیواریں اور پل دباؤ برداشت نہ کر سکے۔یہ سب ثابت کرتا ہے کہ اربوں روپے کی لاگت کے باوجود ڈیزاسٹر رسپانس، دیکھ بھال اور ٹریفک ریگولیشن انتہائی ناقص ہیں۔
جواب دہی اور حکومتی ذمہ داری
اہم سوالات یہ ہیں:
بارش یا برفباری کے ساتھ ہی رامبن اور ادھم پور کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟
ڈیزاسٹر رسپانس اتنا سست کیوں ہے کہ لوگ ہفتوں پھنسے رہتے ہیں؟
16,000 کروڑ روپے کہاں خرچ ہوئے جب سڑک اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کرتی؟
یہ سوال صرف ٹھیکیداروں تک محدود نہیں۔ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (NHAI)، جموں و کشمیر انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ایجنسیاں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔
معاشرتی اور اقتصادی اثرات
1 زراعت: فصلیں ضائع، کسان کروڑوں کے نقصان میں
2 سیاحت: مسافر آنے سے کتراتے ہیں، ہوٹل اور مارکیٹ خالی
3صحت: دوائیاں اور ایمرجنسی سپلائی تاخیر سے پہنچتی ہیں، جانیں خطرے میں
4 مسافر: طلبہ اور ملازمین کئی دن راستوں میں پھنسے
5معیشت: قلت اور مہنگائی بڑھتی ہے، عوام دباؤ میں
ناکامی کی وجوہات
ڈیزاسٹر مینجمنٹ: پیشگی اقدامات اور فوری ردعمل کا فقدان
دیکھ بھال: بروقت مرمت اور نگرانی نہ ہونا
ٹریفک مینجمنٹ: ہم آہنگی کی کمی
منصوبوں کی نگرانی: اربوں کے منصوبے بغیر جواب دہی
سیکھنے کے اسباق
صرف پیسہ خرچ کرنے سے سڑک محفوظ نہیں بنتی۔
پیشگی اقدامات، بروقت نگرانی اور فوری ایکشن ٹیمیں لازمی ہیں۔
شفافیت اور آزادانہ آڈٹ عوام کا حق ہے۔
انجینئرنگ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ٹریفک کو مربوط نظام کے تحت چلانا ضروری ہے۔
آگے کا راستہ اور حل
جموں سرینگرقومی شاہراہ کشمیر کی شہ رگ ہے، لیکن ہر بارش میں بیٹھ جاتی ہے۔ مزید پیسہ لگانے سے زیادہ ضروری ہے۔
بہتر حکمرانی، جواب دہی اور عملی اقدامات
1 ڈیزاسٹر تیاری: بروقت نگرانی اور فوری ایکشن ٹیمیں
2 دیکھ بھال کا نظام: باقاعدہ معائنہ اور فوری مرمت
3 متبادل راستے: مغل روڈ، سرنگ اور دیگر بائی پاس کی تکمیل
4 جواب دہی: شفاف آڈٹ اور ذمہ داری کا تعین
5 سیاسی دباؤ: مقامی حکومت اور نیشنل ہائی ویز کو عوام کے مفاد میں عملی قدم اٹھانا ہوگا
این ایچ-44 صرف ایک سڑک نہیں، کشمیر کی شہ رگ ہے۔ مزید پیسہ لگانے سے زیادہ ضروری بہتر حکمرانی، بروقت جواب دہی اور شفافیت ہے۔عوام جواب چاہتے ہیں، مسافروں کو اعتبار چاہیے اور کشمیر کی معیشت کو بلا تعطل رابطہ درکار ہے۔