عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/وادی کشمیر میں گرچہ اخروٹ اتارنے کا سیزن مزدوروں کی ایک اچھی تعداد کو اخراجات خانہ کا بوجھ ہلکا کرنے میں کافی ممد و مدد گار ثابت ہوتا ہے لیکن یہ سیزن کئی گھرانوں کے لئے باعث مصیبت بھی بن جاتا ہے کیونکہ ہر سال اس سیزن کے دوران کئی مزدور اخروٹ درختوں سے گر کر یا تو لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے ناخیز ہو کر گھر والوں کے نحیف و کمزور کاندھوں پر ہی بھاری بھر کم بوجھ بن جاتے ہیں۔
وادی میں اخروٹ کے درختوں سے گر کر مزدوروں کے فوت ہونے یا جسمانی طور معذور ہونے کا سلسلہ امسال بھی جاری ہے اور ماہ رواں کے دوران ہی اب تک مختلف علاقوں میں چار افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔محکمہ باغبانی کسانوں کو پیدوار بڑھانے اور اس چلینج کا مقابلہ کرنے کے لئے چھوٹے قد کے اخروٹ درخت فراہم کر رہا ہے۔
اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنے کا کام باقی میوہ درختوں سے میوہ اتارنے کے مقابلے جوکھم بھرا کام ہے جس میں اس کام کے کرنے والے کو جان گنوانے کا خطرہ ہر آن لگا رہتا ہے۔اخروٹ کے درخت دیگر پھل کے درختوں جیسے سیب، ناشپاتی، انار، وغیرہ سے قد و قامت میں بڑے ہوتے ہیں اور ان سے اخروٹ اتارنے کا عمل بھی مذکورہ پھل اتارنے کے کاموں سے بھی مختلف ہے۔سیب، ناشپاتی وغیرہ جیسے درختوں سے ایک عام مزدور بھی میوے اتار سکتا ہے اور ان درختوں پر چڑھ کر گرنے کا بھی کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے لیکن اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔
اخروٹ اتارنے والا مزدور ایک لمبا سا ڈندا اٹھائے درخت کی ایک مضبوط شاخ پر بیٹھ کر زور زور سے باقی شاخوں کو مارتا ہے جس سے ان پر لگے اخروٹ نیچے گر جاتے ہیں اور اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ توزان یا توجہ کھو جانے کے ساتھ ہی مزدور خود بھی اخروٹوں کے ساتھ نیچے گر جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال اس سیزن کے دوران کئی مزدور یا تو لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے معذور ہو کر کچھ کمانے سے رہ جاتے ہیں۔
رواں سیزن کے دوران بھی وادی کے مختلف علاقوں میں کئی مزدور اخروٹ اتارنے کے دوران گر کر یا تو ابدی نیند سو گئے یا ہسپتالوں میں پڑے ہیں اور کچھ کے تو مکمل ٹھیک ہونے کے امکانات ہیں جبکہ بعض عمر بھر کے لئے معذور ہوسکتے ہیں۔ماہ ستمبر میں اب تک چار افراد اخروٹ اتارنے کے دوران درختوں سے گر کر لقمہ اجل بن گئے۔اننت ناگ کے اچھہ بل علاقے میں 7 ستمبر کو محمد رفیق ولد عبد العزیز نامی ایک مزدور کی اخروٹ درخت سے گر کرموت واقع ہوئی جبکہ 14 ستمبر کو کپوارہ کے درگمولہ میں محمد اکبر ولد غلام نبی اور 16 ستمبر کو ترال میں مختار احمد ولد عبدالرشید نامی ایک مزدور اس نوعیت کے واقعوں میں فوت ہوگئے۔
وسطی ضلع بڈگام میں بھی ماہ ستمبر میں ہی ایک مزدور کی اخروٹ درخت سے گر کر بر سر موقع ہی موت واقع ہوئی۔جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے رہامہ سے تعلق رکھنے والے ایک بیوپاری طارق احمد نے یو این آئی کو بتایااخروٹ کے درختوں کا قد چونکہ بڑا ہوتا ہے لہذا اس میں مزدور کا گر کر لقمہ اجل ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہااس خطرے کی وجہ سے اس قسم کے مزدوروں کا ملنا ہر گذرتے برس کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے گرچہ ان کی مزدوری باقی مزدوروں سے دوگنا ہے اور وہ اچھی خاصی کمائی بھی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھامیں ایک درخت سے اخروٹ اتارنے کے لئے ایک مزدور کو ایک ہزار روپیہ دیتا ہوں۔موصوف بیوپاری نے کہااس کام کو انجام دینے کے لئے کوئی ٹیکنالوجی بھی دستیاب نہیں ہے جس سے یہ کام انجام دیا جاتا تو انسانی جانوں کا زیاں نہ ہوتا تاہم محکمہ باغبانی چھوٹے قد کے درخت فراہم کر رہا ہے جس سے اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔اخروٹ صنعت کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہایہ ایک فائدہ بخش صنعت ہے، اخروٹ کی مانگ ہمیشہ رہتی ہے اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے خراب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امسال پیدا وار کم ہے لیکن مانگ اچھی ہے اور کاشتکار بھی اور بیوپاری بھی اس کے کاروبار سے اچھا روز گار کما سکتے ہیں۔وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے علی محمد نامی ایک بیوپاری نے بتایاہم یہ کام کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اچھی طرح سے زندگی گذر بسر کر رہے ہیں۔انہوں نے کہامحکمہ باغبانی نے اس صنعت کے فروغ کے لئے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں جن سے کاشتکار فائدہ اٹھا رہے ہیں ، نئی اقسام کے بائی برڈ اخروٹ فراہم کئے جار ہے ہیں کئی علاقوں میں اخروٹ کے باغ بنانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے لیکن جس قدر سیب باغوں کی طرف لوگ متوجہ ہیں اس قدر اخروٹ کی طرف ان کا دھیان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھی معیار کے اخروٹ کی بازار میں ریٹ بھی اچھی ہے۔محمد صادق نامی ایک بیوپاری نے بتایا کہ ہم ایسے مزدروں کو زیادہ سے زیادہ مزدوری دیتے ہیں اور وہ بھی پیشگی ہی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر گزرتے سال ان مزدوروں کا ملنا محال بن جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے مزدور بالکل نہیں ملیں گے جس سے یہ کاروبار ختم ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج کل اگر کوئی مزدور ملتا ہے وہ کسی مجبوری کے تحت ہی ایسا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
موصوف نے کہا کہ جس طرح فصل کٹائی اور دیگر کاموں کے لئے مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح اس کام کی انجام دہی کے لئے بھی کسی مشین کو متعارف کیا جانا چاہئے۔قابل ذکر ہے کہ وادی میں اننت ناگ، کپوارہ اور پلوامہ اضلاع اخروٹ پیدوار کے خاص مراکز ہیں جبکہ شوپیاں، بارہمولہ، بڈگام، سری نگر اور گاند بل میں بھی اخروٹ کی اچھی خاصی پیدوار حاصل کی جاتی ہے۔
کشمیر: اخروٹ اُتارنے کا سیزن مزدوروں کے لئے خطرہ جان
