عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جو پل سرینگر کی ٹریفک کا نجات دہندہ بننا تھا، وہ سب سے بڑا رُکاوٹ بن گیا ہے۔ تقریباً 9.5 کروڑ روپے کی لاگت سے منظور شدہ نورجہان پل قمرواری، جو 2009 میں پرانے سیمنٹ کدل کراسنگ پر ٹریفک کم کرنے کے لیے بنایا جانا تھا، 15 برس گزرنے کے باوجود آج تک نامکمل ہے، جس کے باعث روزانہ ہزاروں گاڑیاں اسی تنگ راستے سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ہروقت بس ایک ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے،جام سڑکیں، ہارن بجاتی گاڑیاں، پھنسی ہوئی ایمبولینسیں اور اسکول بسیں۔
ڈاؤن ٹاؤن کے رہائشی ریاض احمد نے کہا، ’’اگر یہ پل کھل گیا ہوتا تو آدھی مشکل ختم ہو جاتی ،انھوں نے کہا ہر صبح تقریباً 20 منٹ قمرواری کراس کرنے میں ضائع کرتے ہیں۔130 میٹر لمبا یہ پل 2014 تک مکمل ہونا تھا، لیکن تین مختلف حکومتوں کے دوران چھ سے زائد ڈیڈ لائنیں گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ آج بھی تعطل کا شکار بن کر سرکاروں کی سست روی کی علامت بن چکا ہے۔حکام نے زمین کے حصول کے تنازعات اور ٹھیکیدار کی کوتاہیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور بدانتظامی و سیاسی عدم دلچسپی کا اعتراف بھی کیا ہے۔
سپرنٹنڈنگ انجینئر آر بی شوکت احمد کمار نے بتایا کہ ٹھیکیدار پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور کئی بار ڈیڈ لائن میں توسیع دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا اب ہم اگلے دو ماہ میں تکمیل کا ہدف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تعمیراتی سامان کی عدم دستیابی کے باعث مشکلات پیش آئیں، لیکن اب سامان دستیاب ہے۔
پل کی سائٹ پر دن کے وقت مزدوروں کی غیر موجودگی کے سوال پر ایس ای نے وضاحت دی کہ کام رات کو انجام دیا جا رہا ہے اور منصوبہ اگلے دو ماہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔تاہم مقامی لوگ پُر امید نہیں ہیں۔ علی محمد نامی ایک شہری کا کہنا تھا کہ برسوں سے دو ماہ کی بات ہورہی ہے لیکن عملی طور کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اِس پل کی مکمل تعمیر سے متعلق ہم نے یقین کھو دیا ہے۔ انھوں نے کہا’’یہ صرف ایک پل نہیں جو رُکا ہوا ہے یہ ہماری زندگیاں ہیں جو رکی ہوئی ہیں‘‘۔