فکر و فہم
حمیرا فاروق
استاد ایک ایسے ہستی ہے جو انسان کو ظلمت کی اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے ۔ انسان کے اندر انسانیت کا مادہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے غلط اور ٹھیک میں تمیز کرنے کا شعور رکھتا ہیں ۔ یہ انسان کو سیدھے راہ کی اور رہبری و رہنمائی کرتے ہیں ۔ چونکہ علم حاصل کرنے کے لیے ضروری کسی رہبر و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔استاد جہاں انسان میں کوئی کمی دیکھتے اسکو رفع کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ تنقید کرتے ہیں۔ اور مزید انسان کی شخصیت کو نکھارنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں ۔ مہذب استاد کی وجہ سے باشعور اور تعلیم یافتہ ،حیاکن اور پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔
استاد ہمیں علم سکھاتے ہیں جس کے بغیر ہم اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان سکتے ۔ استاد اندھیروں کا وہ چراغ ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے ۔ لہذا ہم پر انکی تعظیم لازمی ہیں ۔ علم سیکھنے والوں کی قدر کرنی چاہیے ۔ انسان علم کی ہی وجہ سے دوسروں کا ادب و احترام کرنا سیکھتا ہے ۔ علم نہ ہو تو انسان پر شیطان زیادہ حاوی رہتا ہے ۔ علم چراغ ہے جو انسان کو عمل کرنا سکھاتا ہے ۔ علم کے زریعے سے ہی ایک انسان کی سیرت اچھی بن جاتی ہے ۔ چونکہ علم حاصل کرنا پیغمبروں کا شیئوہ تھا ۔ اور وہ علم ہم استاد سے ہی سیکھتے ہے وہ انسان کو روحانی تعلیم و تربیت سے فیض یاب کرتے ہیں۔ استاد اپنے شاگروں کو ترقی کرتے دیکھکر بہت فخر و فرحت محسوس کرتے ہیں ۔ اگرچہ وہ خود کیسا بھی ہو لیکن اپنے شاگردوں کو ہمیشہ اعلی معیار پر دیکھنا چاہتا ہے ۔استاد انسان کو اونچا کرتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب بچا اسے بڑا ہے کوئی ڈاکٹر بنے یا انجینر فلاسفر بنے یا کوئی دنیا کا بڑا لیڈر پھر بھی ان ہستیوں کے پیچھے استاد کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
رسول اللہؐ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ۔ استاد کا پیشہ پیغمبرانہ پیشہ ہے یہ کوئی عام پیشہ نہیں ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا، وہ میرا استاد ہے وہ چاہے مجھے اپنا غلام بنائے یا چاہے تو آزاد کرے، یعنی وہ اتنی تکریم استاد کی کرتے تھے، اسکو اپنا مالک سمجھتا تھا جتنا حق ایک مالک کو اپنے غلام پر ہوتا ہے، اتنا ہی ایک استاد کو بھی ہے ۔ اگر استاد کی عظمت دل میں آجائے تو انسان سچ میں علم حاصل کر سکتا ہے۔ ایک تو علم آسان بھی ہوجاتا ہے اور مزید انسان کے دل کے اندر شوق و ولولہ بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ انسان کبھی بھی کامیابی کی منزل کی اور نہیں پہنچ پائے گا جو استاد کا ادب و احترام نہ کرے ۔ جب ایک شاگرد اساتذہ کی مجلس میں بیٹھے تو خود کو عاجز اور چھوٹا سمجھ لے، اسکو اللہ تعالیٰ پھر ضرور علم سے نوازتا ہے اور بڑوں کے ساتھ ادب واحترام کرنے سے انسان خود ہی دوسروں کی نظروں میں قابل احترام بنتا ہے ۔استاد کا احترام کامیامی کی پہلی سیدھی ہوتی ہے، استادتو طالب علم کا کردار بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے یہ انسان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے ۔
حال میں ہی ہم نے جس چمن میں داخلہ لیا جہاں مجھے معزز و مکرم اساتذہ کرام کی طرف سے بہت ممتا ملی ۔ وہ ہر بچے کی صلاحتوں کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انکے اندر خلوص و محبت کا وہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ انکی ہر ڈانٹ میں ایک نئ ممتا مضمرہے ۔ انکے دلوں میں اپنے طالب علموں کی زندگیوں کو علم کے نور سے روشن کرنے کے ماسوا کچھ نہیں ۔ وہ سچ میں روحانی والدین کی حق ادائیگی کرتے ہیں ۔
یہ بات افسوس کے ساتھ کی جارہی ہے کہ آج کے طالب علموں میں شرم و حیا نہیں رہی کہ وہ استاد کے ساتھ احترام سے پیش آئیں ۔ اسکے برعکس ہمارا معاشرہ استاد کی تذلیل کرنے پہ اتر آیا ہے، انکی زندگیوں کو داغدار بناتے ہیں ۔ چونکہ ہمیں پتہ ہے کہ استاد کی عزت صرف طالب علموں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ہماری قوم کی بھی ذمہ داری ہے ۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو استاد بھی اپنے کام سے جی چراتے ہیں ،ان میں بھی اب وہ خلوص نہیں رہا۔ یہاں ہر کوئی پیسہ کمانے کی فکر میں لگا ہے، ہر ایک کے دل میں کھوٹ ہے ۔ آجکل تعلیم حاصل کرنا بھی ایک تجارت بن گیا ،یہ بھی ایک وجہ ہے کہ پرانے زمانے کی طرح استاد کا وہ احترام نہیں رہا ۔ اگر استاد پرخلوص نیت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرے تو انکے دل میں اسکا احترام پیدا ہوتا ہے، ورنہ اگر استاد کی نیت میں کھوٹ ہو تو بچے بھی ادب سے عاری رہیں گے۔ لہٰذا استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر وہ صلاحتیں بیدار کرے جو پرانے زمانے کے اساتذہ میں پائی جاتی تھی اور طلباء کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا مقام بلند کرنے کے لیے اساتذہ کا ادب و احترام کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیںکہ یہ پیشہ پیغمبرانہ ہے۔ لہٰذا استاد اور شاگرد دونوں کو چاہئے کہ اس پیشے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیںتاکہ نہ ہی انسان دنیا میںاور نہ ہی کل کو آخرت میں اسکو ذلالت کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کی عزت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین