سمت بھارگو
راجوری//جموں۔سرینگر نیشنل ہائی وے پر ادھم پور کے تھرڈ علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی اور ٹریفک کی بندش کو دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے۔ اس دوران وادی کشمیر کے لئے ضروری سپلائی چین قائم رکھنے کے بعد اب مغل روڈ باغبانی معیشت کے لئے بھی شہ رگ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ہائی وے پر ہیوی موٹر وہیکلز (ایچ ایم ویز) کی آمدورفت معطل ہونے کے باعث وادی میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے اور اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوگئی۔ اگرچہ حکام نے صرف لائٹ موٹر وہیکلز کے لئے ایک طرفہ ٹریفک بحال کر دیا ہے لیکن بھاری گاڑیوں کے لئے مکمل بحالی ابھی باقی ہے، جس کے باعث تاجروں اور عام عوام کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔عہدیداروں کے مطابق 90 کلومیٹر طویل مغل روڈ، جو ضلع پونچھ اور راجوری کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں سے جوڑتا ہے، نے گزشتہ دنوں وادی کو محدود پیمانے پر پیٹرولیم مصنوعات سمیت ضروری سامان کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اس راستے پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد مرکزی ہائی وے کے مقابلے میں کم رہی، لیکن اس متبادل راہداری نے کسی حد تک سپلائی چین کو برقرار رکھنے میں مدد کی۔اب حکام نے باغبانی کی پیداوار سے لدے ٹرکوں کو بھی مغل روڈ کے ذریعے منتقل کرنا شروع کر دیا ہے، خاص طور پر سیب، جو کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وقت پر منڈیوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ضائع ہونے کے خدشے سے دوچار تھے۔ اس صورتحال نے باغبانی سیکٹر کے تاجروں اور کاشتکاروں میں سخت تشویش پیدا کر دی تھی اور کئی علاقوں میں احتجاج کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ڈویژنل کمشنر کشمیر نے اپنے دورہ مغل روڈ کے دوران بتایاکہ ’صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہی 2200 سے زائد پھلوں سے لدے ٹرک جموں کی جانب روانہ کئے گئے ہیں، جو ایک بڑا ریلیف ہے‘۔ایس پی ٹریفک (جموں رورل) گردھاری لال شرما نے بھی یقین دہانی کرائی کہ اشیائے ضروریہ اور باغبانی کی پیداوار لے جانے والی گاڑیوں کی نقل و حرکت کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ’ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ ضروری سامان کشمیر تک اور وادی کے پھل دیگر ریاستوں تک بروقت پہنچ سکیں تاکہ معیشت کو نقصان نہ ہو‘۔قومی شاہراہ کی مکمل بحالی کے حوالے سے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (این ایچ اے آئی) کی جانب سے فوری ریلیف کا کوئی اعلان نہ ہونے کے بعد، حکام اور تاجر دونوں ہی مغل روڈ پر بڑھتی ہوئی انحصار کی جانب دیکھ رہے ہیں۔تاجروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مغل روڈ پر سفر نسبتاً دشوار ہے اور گاڑیوں کی تعداد محدود ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہی راستہ واحد سہارا ہے جو وادی کی معیشت کو بچا سکتا ہے۔مقامی باغبانوں نے انتظامیہ کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ٹرکوں کو بروقت نکالا گیا تو نہ صرف ان کی محنت محفوظ رہے گی بلکہ وادی کی سب سے بڑی روزگار سے جڑی معیشت بھی تباہی سے بچ جائے گی۔فی الوقت حکام کی کوشش ہے کہ جب تک قومی شاہراہ مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتی، مغل روڈ کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنایا جائے تاکہ وادی کشمیر کی ضروریات زندگی اور باغبانی کی معیشت دونوں چلتی رہیں۔