صدائے کمراز
اِکز اِقبال
دنیا کا نقشہ روز نئی تبدیلیوں سے دوچار ہے، لیکن کبھی کبھی کسی چھوٹے ملک کی گلیوں میں اٹھنے والی ایک لہر پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حال ہی میں نیپال کی سڑکوں پر نوجوانوں کے ہجوم نے جو کہرام برپا کیا، وہ صرف ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ ایک نیا بیانیہ تھا۔ یہ آواز جو چیخ کر بتا رہی تھی کہ آج کے نوجوان صرف نعرے نہیں لگاتےبلکہ حکومتوں کو ہلا دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
یہ وہ نسل ہے جسے ہم ’’جن زی‘‘ ( Gen Z ) کہتے ہیں۔ یہ نسل موبائل اسکرینوں میں پلی بڑھی ہے۔ جس کے خواب بھی ٹچ اسکرین پر بنتے ہیں اور غصہ بھی اسی کے ذریعے باہر آتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں کتابیں کم اور موبائل زیادہ ہیں، مگر یہی موبائل آج کے زمانے میں ان کا ہتھیار ہے۔چنانچہ جب نیپال کی حکومت نے اچانک ان پلیٹ فارمز پر قدغن لگا دی تو گویا ان کے وجود پر پہاڑ توڑ دیا۔ یہ پابندی صرف سنسرشپ نہ تھی بلکہ نسلِ نو کے وجود کو مٹانے کی کوشش تھی۔ جیسے سانس روک دیا گیا ہو، جیسے زبان کھینچ لی گئی ہو۔یہ کوئی راز نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کرپشن، بے روزگاری اور اقربا پروری جیسے ناسوروں سے دوچار ہیں۔ نیپال بھی انہی مسائل کی آماجگاہ ہے۔ برسوں سے نوجوانوں کو روزگار کے جھوٹے وعدے سنائے گئے، ان کے خواب بیچے گئے، مگر حقیقت میں ان کے ہاتھ خالی رہے۔ لیکن یہ نوجوان خاموش تماشائی نہیں رہے۔ انہوں نے ایک ہی لمحے میں حکومت کو یہ احساس دلایا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں، بلکہ ایک امانت ہےاور جب اس امانت میں خیانت ہو تو عوام، خاص طور پر نوجوان، حساب لینے میں دیر نہیں کرتے۔یہ احتجاج ایک اعلان تھ تھا ۔’’اب اور نہیں۔‘‘یہ احتجاج ایک چنگاری تھی جو لمحوں میں شعلہ بن گئی۔یہ احتجاج ایک سوال تھا جو حکومت کے ہر وزیر کے دروازے پر جا کر دستک دے رہا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور کے نوجوان کے لئے موبائل صرف ایک آلہ نہیں بلکہ اس کی پوری کائنات ہے۔ یہ موبائل اس کا استاد بھی ہے، وکیل بھی، جج بھی اور دوست بھی۔ احتجاج کی کال بھی وہیں سے آتی ہے، نعروں کے پوسٹر بھی وہیں بنتے ہیں اور انقلاب کی خبریں بھی وہیں سے پھیلتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نیپال کے نوجوان سڑکوں پر نکلے تو ان کے ہاتھ میں کوئی جھنڈا نہیں تھا، بلکہ ان کے ہاتھوں میں موبائل تھے۔ ہر ایک نے اپنا احتجاج براہِ راست نشر کیا، ہر نعرے کو ٹویٹ بنایا اور ہر آنسو کو وائرل کر دیا۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ انحصار ان کی سب سے بڑی طاقت ہے یا سب سے بڑی کمزوری؟ کیونکہ جو نسل موبائل کے بغیر اپنی آواز بلند نہ کر سکے، وہ اپنی اصل قوت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ موبائل انہیں عالمی پلیٹ فارم دیتا ہے، مگر ساتھ ہی انہیں ایک ایسی قید میں بھی جکڑ دیتا ہے جہاں حقیقی دنیا کے تجربات کم اور مجازی دنیا کے سراب زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ نسل روشنی کی کرن بھی ہے اور طوفان کا جھکڑ بھی۔ ان کے اندر تخلیق کی طاقت ہے، لیکن انہی کے اندر بربادی کا سامان بھی چھپا ہے۔ نیپال کے احتجاج نے یہ ثابت کیا کہ جب نوجوانوں کا صبر جواب دے جائے تو حکومتیں ایک پل میں زمیں بوس ہو سکتی ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک کرپٹ نظام کے خلاف دبے ہوئے غصے نے شور میں بدلنے کی بجائے طوفان کی شکل اختیار کر لی۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نسل صرف کتابی باتوں پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ نسل لمحہ بہ لمحہ انصاف مانگتی ہے۔ یہ وہ پرندے نہیں جو صبر کا گھونسلہ بنائیں، بلکہ یہ شاہین ہیں جو فلک شکاف پرواز کرتے ہیں اور نظام کے مردہ جسم پر پنجے گاڑنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
نیپال کے اس احتجاج نے ایک اور سوال بھی کھڑا کر دیا ہے۔کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کے لئے آزادی کا ذریعہ ہے یا انارکی کا؟ ایک طرف یہی پلیٹ فارم ان کے لئے انصاف کی دہائی ہے، دوسری طرف یہ انہیں ایسی عادت میں مبتلا کر دیتا ہے جہاں ہر مسئلہ صرف ’’وائرل‘‘ کر کے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی تبدیلی صرف ہیش ٹیگ سے نہیں آتی، بلکہ میدان میں قدم رکھنے سے آتی ہے۔
ہمیں نیپال کے نوجوانوں کی آواز میں اپنی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے بھی انہی مسائل سے دوچار ہیں۔ بے روزگاری، کرپشن، اقربا پروری اور نوجوانوں کے خوابوں کی ارزانی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کے نوجوان ابھی تک اس توانائی کو بکھیر رہے ہیں۔ اگر یہ توانائی مجتمع ہو جائے، تو یہ نسل کسی بھی وقت حساب چکتا کر سکتی ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنی نسل کو موبائل کی قید سے نکال کر شعور کی دنیا میں لائیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان کے احتجاج کو صرف غصہ نہ بننے دیں بلکہ ایک بامعنی تحریک میں ڈھالیں۔ ورنہ یہی نوجوان جو آج روشنی کا وعدہ ہیں، کل ہمارے اپنے لئے طوفان بن سکتے ہیں۔
نیپال کی گلیوں میں اٹھنے والا یہ شور ہمیں ایک آئینہ دکھا گیا ہے۔ یہ آئینہ کہہ رہا ہے کہ نوجوان نسل کے صبر کو آزمانا اب کسی حکومت کے لئے ممکن نہیں رہا۔ یہ آئینہ بتا رہا ہے کہ موبائل کے ذریعے پیدا ہونے والی آواز کو دبانا اب ناممکن ہے اور یہ آئینہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اگر نوجوانوں کو مثبت راستہ نہ دیا گیا تو یہ نسل اپنے ہی ہاتھوں سے سب کچھ مسمار بھی کر سکتی ہے۔یہ وہ سبق ہے جو نیپال کی گلیوں نے ہمیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ سبق سیکھ لیا ہے؟
نیپال کا یہ احتجاج ہمارے لئے آئینہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کرپشن، بے روزگاری اور اقربا پروری کے اندھیروں میں نسلِ نو کو زیادہ دیر تک الجھا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ نوجوان خاموش رہنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے، یہ شاہین ہیں جنہیں پرواز کی تمنا ہے۔ اگر ہم نے انہیں پرواز کے لئے آسمان نہ دیا تو وہ اپنا آسمان خود تراش لیں گےاور جب وہ آسمان خود تراشیں گے تو پرانے ایوان ویران ہو جائیں گے۔
شاید حکمران اب بھی یہ سمجھتے ہوں کہ نوجوان محض اسمارٹ فون کے عادی ہیں، ٹرینڈز اور ہیش ٹیگز میں کھوئے ہوئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی ہیش ٹیگ جب طوفان میں بدلتے ہیں تو تخت لرزتے ہیں اور ایوان خالی ہو جاتے ہیں۔ نیپال کے شور نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ یہ نسل محض صارف نہیں، یہ نسل مؤلف بھی ہے، فیصلہ ساز بھی۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان کے ہاتھوں میں قلم تھمائیں یا انہیں طوفان کے سپرد کر دیں۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]