عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/سری نگر- جموں شاہراہ پر مسلسل تین ہفتوں سے ٹریفک کی نقل و حمل متاثر رہنے کی وجہ سے کشمیر کے باغبانی کے شعبے کو ہونے والے بے تحاشا نقصان کے بیچ سیب کو ملک کے باقی حصوں میں پہنچانے کے لئے پارسل ٹرین کے آغاز نے اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کے لئے گرچہ بڑی حد راحت کا سامان مہیا کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ سہولت بڑی ڈیمانڈ سپلائی چین کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہے۔ریلوے کے افسران، جنہوں نے پارسل ٹرین کو ایک تاریخی کامیابی سے تعبیر کیا، نے کہا کہ 11 ستمبر جب سے یہ سروس شروع کی گئی، سے تقریباً 7 سو ٹن سیب کشمیر سے باہر بھیج دئے گئے۔
جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے پیر کو بڈگام سے آدرش نگر دہلی کے لئے پہلی پارسل ٹرین کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس سہولت سے نمایاں طور پر ٹرانزٹ کا وقت کم ہوگا اور مال بردار ٹرین سروس جموں وکشمیر کے سیب کے کاشتکاروں کے لیے اپنی پیداوار کو ملک کے مختلف حصوں تک پہنچانے کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے سیبوں کی بیرون وادی ٹرانسپورٹیشن تیز اور کم خرچے پر کی جائے گی مارکیٹ کے روابط بھی بڑھ جائیں گے جس سے کسانوں کی زندگی اور معاش بہتر بن جائے گا۔اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ٹرینوں کی موجودہ تعدد اور گنجائش شاہراہ کے ذریعے میوہ باہر لے جانے کا متبادل نہیں ہے۔سوپور فروٹ منڈی کے صدر فیاض احمد ملک نے یو این آئی کو بتایا: ‘آٹھ ڈبوں والی یہ ٹرین 10 ٹرکوں کا لوڈ لے جاسکتی ہے لیکن ہمیں مانگ کو پورا کرنے کے لئے ہر روز ایسی کئی ٹرینوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاصرف سوپور کے لئے جو ایشیا کی سب سے بڑی فروٹ منڈیوں میں سے ایک ہے، کو سیب کو کشمیر سے باہر کی منڈیوں میں لے جانے کے لیے روزانہ 50 سے 100 ایسی پارسل ٹرینوں کی ضرورت ہوگی۔فیاض ملک نے خبردار کیا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیب کی صنعت کو بڑے پیمانے پر نقصان ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تخمینہ شدہ نقصان کی حد 1 ہزار کروڑ روپیوں سے 1 ہزار 2 سو کروڑ روپیوں کے درمیان ہے۔
کشمیر ویلی فروٹ گروورز ایںڈ ڈیلرز یونین کے چیئرمین بشیر احمد نے کہا کہ ضرورت کا پیمانہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ریل سروس اس وقت فراہم کر رہی ہے۔انہوں نے کہا ستمبر کے دوران، سیبوں سے لدے 1 ہزار سے 1 ہزار 5 سو ٹرک ہر روز ملک بھر کی منڈیوں کے لیے وادی سے نکلتے تھے۔ اس لحاظ سے ہماری ضرورت کا اچھی طرح سے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پارسل ٹرین کو متعارف کرنا ایک اچھا قدم ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گذشتہ روز بھی وزارت ریلوے سے ٹرینوں کی تعداد بڑھانے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہاہم ایک ٹرین کو جھنڈی دکھا کر دہلی روانہ کرنے کے لئے شکر گزار ہیں، لیکن ایک ٹرین کافی نہیں ہے۔ براہ کرم اسے باقاعدگی سے چلائیں تاکہ پھل کاشت کرنے والے اور تاجر اگر چاہیں تو اپنا سامان ریل کے ذریعے منتقل کر سکیں، جب کہ باقی سڑک کا استعمال کریں گے۔ریلوے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریلوے کی طرف سے پھلوں کے تاجروں کو تمام مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہاہم زمینی سطح پر کئے جا رہے مطالبات کو پورا کرنے کی سمت میں کام کر رہے ہیں، ریلوے سیب صنعت سے منسلک افراد کو درکار تمام مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔باغبانی کشمیر کی معیشت کی بنیاد ہے اور یہاں سات لاکھ خاندان براہ راست اور بالواسطہ طور پر اس شعبے پر منحصر ہیں۔
جموں و کشمیر کے اقتصادی سروے – 2023 اور 2024 کے مطابق، باغبانی کا حصہ جموں اور کشمیر کی مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار میں سات فیصد ہے اور مالی سال – 2024 اور 2025 میں وادی میں 26.46 لاکھ میٹرک ٹن پھل جس میں بیشتر حصہ سیب کا تھا، پیدا وار حاصل کی گئی۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کی بڑی سیب پیدا کرنے والی ریاستوں میں ہماچل پردیش، جموں اور کشمیر، اتراکھنڈ، اروناچل پردیش اور ناگالینڈ شامل ہیں۔ لیکن کشمیری سیب، جو اپنی مٹھاس اور بناوٹ کی وجہ سے مشہور ہیں، ملکی اور بین الاقوامی دونوں بازاروں میں ان کی خاص مانگ میں رہتے ہیں۔
پارسل ٹرین باعث راحت لیکن سیب کی نقل و حمل کے لئے قومی شاہراہ کا متبادل نہیں: کاشتکار
