۔ 2مساجد، 3قبرستان اور3سکول بھی متاثر، متاثرین کو فوری متبادل جگہ فراہم کرنے کا مطالبہ
جاوید اقبال
مینڈھر //جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کے مینڈھر سب ڈویژن کے کالابن علاقے میں حالیہ دنوں کی موسلا دھار بارشوں نے قیامت ڈھا دی ہے۔ لگاتار بارشوں کے نتیجے میں زمین کا ایک بڑا حصہ اچانک دھنس گیا، جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس افسوسناک سانحے میں 70 سے زائد رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے، جبکہ 41 مکانات تو زمین کے اندر ہی سما گئے۔ اس کے علاوہ دو مسجدیں، تین قبرستان اور تین سرکاری اسکول بھی اس آفت کی زد میں آکر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔اس غیر متوقع سانحے نے متاثرہ گاؤں کے سینکڑوں مکینوں کو بے یار و مددگار بنا دیا ہے۔ گاؤں میں خوف و ہراس کا عالم ہے اور لوگ کھلے آسمان تلے یا رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق کئی دہائیوں سے آباد پورا محلہ لمحوں میں اجڑ گیا اور اب وہاں صرف کھنڈرات اور مٹی کا ڈھیر باقی رہ گیا ہے۔ زمینی کٹاؤ اور مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کے باعث مزید نقصانات کے خدشات بدستور موجود ہیں۔انتظامیہ نے فوری طور پر متاثرہ کنبوں کے لئے راشن اور ٹینٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن مقامی لوگوں نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں یہ واضح نہیں بتایا گیا کہ یہ ٹینٹ کہاں نصب کئے جائیں۔ پورا علاقہ ہی زمین دھنسنے کے باعث غیر محفوظ ہوچکا ہے اور ٹینٹ لگانے کی کوئی مناسب جگہ میسر نہیں۔ متاثرہ کنبے فی الحال رشتہ داروں کے گھروں میں عارضی طور پر مقیم ہیں، لیکن یہ انتظام زیادہ دیر تک چلنا ممکن نہیں۔ایک مقامی شخص نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہمارے گھر زمین میں دب گئے، کھیت برباد ہوگئے اور اب سر چھپانے کے لئے بھی زمین محفوظ نہیں رہی۔ انتظامیہ نے ٹینٹ تو دیے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ کہاں لگائیں۔ ہم کب تک دوسروں کے گھروں میں رہیں گے؟ ہمیں فوری طور پر محفوظ جگہ چاہیے‘‘۔مقامی لوگوں نے مزید کہا کہ ابتدائی امداد ناکافی ہے۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ متاثرین کے لئے محفوظ مقام پر عارضی کیمپ قائم کئے جائیں اور مستقبل میں مستقل بازآبادکاری کے اقدامات کیے جائیں۔ماہرین کے مطابق بارشوں کے دوران پہاڑی علاقوں میں زمین کے کٹاؤ اور ڈھلوانوں پر دباؤ بڑھنے سے ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جموں و کشمیر میں زمین دھنسنے کے واقعات میں اضافہ ماحولیات اور زمینی استحکام کے حوالے سے سنگین خدشات کو ظاہر کرتا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی تاہم اب تک کسی متبادل محفوظ جگہ کے تعین کے حوالے سے واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ مقامی آبادی کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر محفوظ مقامات پر ریلیف کیمپ قائم کرے، متاثرہ خاندانوں کی مستقل بازآبادکاری کا منصوبہ فراہم کرے اور نقصانات کا صحیح تخمینہ لگا کر معاوضہ دیا جائے۔کالابن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ ان کی چھت، زمین اور روزگار سب کچھ چھین لے گیا ہے اور اب ان کے لئے مستقبل ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ وہ بے گھر ہوکر شدید اضطراب اور کرب میں ہیں اور حکام کی فوری اور عملی کارروائی کے منتظر ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سیول اور پولیس انتظامیہ مسلسل علاقے کا دورہ کر رہی ہے تاکہ مزید جانی نقصان کو روکا جاسکے۔