فاضل شفیع بٹ
آج بیس سال بعد اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں۔اس کے لب خاموش تھے اور اس کی آنکھوں میں وہی مقناطیسی کشش تھی جس نے مجھے آج سے بیس برس قبل اپنی جانب کھینچا تھا اور وہ میرے دل کو بھا گئی تھی ۔میں بارہویں جماعت میں تھا جب پہلی دفعہ میں نے اس کو اسکول میں دیکھا تھا۔ اس کا نام ایمن تھا ۔اس کی ہر ایک ادا میں دلکشی تھی۔ گول چہرہ، خوبصورت ناک، چھریرا جسم اور سرمئی بڑی آنکھیں ۔۔۔۔اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں ایک عجیب سی کیفیت جنم لیتی، اس کی دلکش آنکھیں گویا میرے دل کے نہاں خانوں میں رقص کرتیں۔
میں ایمن کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا حالانکہ میں اس کی دلی کیفیت سے بے خبر تھا ۔میں اس کو بڑی شدت سے چاہنے لگا تھا ۔یہ میرے لڑکپن کی پہلی محبت تھی جس میں ایک شدت تھی، ایک جذبہ تھا ۔۔میرے خیالوں میں ایمن کا مقام ایک قیدی کا تھا ۔۔ایک ایسا بے گناہ قیدی جو بغیر کسی جرم کے سزا کاٹ رہا ہو ۔محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ وسائل نہ تھے ۔نہ ہی فون تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ ۔۔۔خط لکھنے کے لیے مجھے بہت سے شعراء کی شاعری کا باریکی سے مطالعہ کرنا پڑا ۔ایک ہفتے میں خط تو مکمل ہوا مگر اب بات تھی خط کو اس کے اصل حقدار تک پہنچانے کی ۔۔۔میں نے لاکھ کوششیں کی کہ کسی طرح خط ایمن کے نازک ہاتھوں میں تھما دوں لیکن میری ہمت جواب دے چکی تھی ۔معلوم نہیں کیوں اس کو دیکھتے ہی میرا سارا جسم کانپتا اور میری ٹانگیں لڑکھڑا جاتیں۔۔
ایک صبح بارش کافی زور و شور کے ساتھ برس رہی تھی ۔ہوا میں خنکی تھی اور آسمان گہرے اور کالے بادلوں کی آغوش میں تھا ۔ اسکول نہ جانے کا ایک اچھا خاصا بہانہ مل چکا تھا ۔بارش کی بوندوں کی طرح ایمن کے خیالوں نے میرے ذہن کو بھگو دیا ۔میں جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو ایمن کو اپنے سامنے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے ۔ایمن نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور وه ہمارے پڑوسی کے گھر کی طرف چلی گئی ۔میں بڑا متحیر تھا اور ایمن کے آنے تک سڑک پر اس کا منتظر تھا ۔ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایمن صائمہ کے ہمراہ واپس لوٹ کر آئی۔صائمہ نے ایمن کو گاڑی میں بٹھا دیا ۔صائمہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور میرے ساتھ اس کے اچھے خاصے مراسم تھے ۔میرا دل بلیوں اچھلنے لگا ۔اب قاصد کا انتظام ہو چکا تھا ۔میں نے صائمہ کو اپنی دلی کیفیت سے آگاہ کیا ۔وہ زیر لب مسکرانے لگی ۔میری کافی منت سماجت کے بعد وہ ایمن تک میرا خط پہنچانے کے لیے راضی ہو گئی ۔
اتوار کی صبح میں نے صائمہ کے ہاتھوں میں ایمن کے نام کا خط تھما دیا ۔صائمہ خط لے کر روانہ ہو گئی اور میں خیالی پلاؤ پکانے میں دن بھر مصروف رہا ۔شام کو صائمہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میرا خط ایمن تک پہنچ چکا ہے۔اب میری راتوں کی نیند بھی حرام ہو چکی تھی اور میں بے صبری سے خط کے جواب کا منتظر تھا مگر ایمن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا ۔
میں اللہ کے حضور گڑگڑاتا ،دعاؤں میں خط کے جواب کا ذکر کرتا مگر نا امیدی شاید میرا مقدر بن چکی تھی ۔چند دن انتظار کرنے کے بعد میں نے ایک اور لمبا چوڑا خط لکھ کر صائمہ کے سپرد کیا جس نے وہ ایمن تک پہنچایا ۔اس بار مجھے خط کے جواب آنے کی پوری امید تھی لیکن وہ امید دور کہیں بیابانوں میں مدھم هو گئی تھی۔شاید میں ایمن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا یا شاید کوئی اور مسئلہ تھا جو میری سوچوں سے کوسوں دور تھا ۔
ایک سال بیت گیا ۔اب مجھے کالج میں ایڈمشن کرانا تھا ۔معلوم نہیں کیوں ایمن ہمیشہ میری یادوں میں بہار کی فرحت بخش ہواؤں کی طرح میرے ہر عضؤ کو تر و تازہ کرتی تھی ۔اس کا تیکھا نقش گویا میرے روح پر کنده تھا ۔میں واقعی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن اس کی خاموشی برچھیوں کی مانند تھی جو لفظوں سے زیادہ گہرے زخم دیتیں۔
ایک رات جب میرا تکیہ سے تر تھا ۔ایمن میرے سرہا نے بیٹھ کر میرا سر اپنے نازک ہاتھوں سے دبانے لگی ۔ایمن نے میرے بہتے ہوئے آنسؤ اپنے دوپٹے سے پونچھ لئے ۔وہ رقت آمیز لہجے میں مجھ سے مخاطب تھیں:
“میری جان ۔۔۔مجھے بھی تم سے محبت ہے پر کیا کروں۔۔۔۔۔۔ میں مجبور ہوں۔۔۔۔۔۔ ۔میں نے اپنے ابو سے وعدہ کیا ہے کہ ہمیشہ ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح اس کے ہر حکم کی پیروی کروں گی ۔۔۔۔۔۔میرے ابو نہیں چاہتے کہ میں اس عمر میں کسی لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو جاؤں ۔۔جان۔۔۔۔۔۔ میں اپنے ابو کی عزت کے خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ۔اپنے ابو کی خوشی میری اصل محبت ہے ۔میں تم کو چاہتی ہوں لیکن تم انتظار کرو۔۔۔۔۔۔ ۔جب ہم اُس قابل ہو جائیں گے تو میں یقین دلاتی ہوں کہ ہم لوگ شادی کریں گے”
ایمن نے میرے ماتھے پر ایک محبت آمیز بوسہ دیا اور جیسے ہی میں نے ایمن کے خاموش لبوں کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تو وہ غائب ہو چکی تھیں۔اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی ۔رات کافی گہری ہو چکی تھی اور ایمن میرے خواب کا حصہ تھی۔اس خواب نے گویا میرے کمرے کے در و دیوار پر ایمن کی آنکھوں کا عکس ثبت کیا اور میں تمام شب ان نگاہوں کے سحر میں محو گھورتا رہا ۔دل چاہتا تھا کہ یہ خواب بار بار پلٹ کر آئے کہ شاید یہ ایمن کی محبت کا کوئی خاموش اقرار تھا ۔مگر خوابوں کی دنیا اپنی ازلی فطرت کے باعث ہمیشہ حقیقت کے دائرے سے پرے رہتی ہے ۔میرے خوابوں کا یہ چراغ صبح کی دودھیا روشنی کے لمس سے ہی بجھ گیا اور اب کمرے میں میرے ساتھ بس تنہائی تھی ۔
وقت کروٹیں لیتا گیا ۔مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ایمن آہستہ آہستہ میری یادوں کے پردے سے اوجھل ہو رہی ہے لیکن جب بھی میری نگاہ اپنے بازو پر پڑتی جہاں میں نے اس کا نام کندہ کیا تھا تو دل پرانی تڑپ کی کرچیاں لئے پھر سے لہو لہاں ہو جاتا ۔ایمن میری زندگی کی مصروفیات ،موبائل فون کی آمد اور گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے شاید دب چکی تھیں۔اب وہ میرے خوابوں خیالوں کا حصہ نہ رہیں ۔شاید میں اس کی زندگی میں کسی اہمیت کا حامل نہ تھا یا شاید وہ اپنے ابو سے کئے ہوئے وعدوں کو اپنی آنکھوں کی گہرائیوں میں سمیٹے ہوئے تھیں۔جو خواب میں نے دیکھا تھا وہ محض ایک خواب سراب هی ثابت ہوا ۔
میری شادی ہوگئی اور ایمن کی یادیں دور کہیں آسمانوں کے بادلوں میں گھل مل گئیں ۔جب کبھی آسمان پر گہرے بادل چھا جاتے تو میں ایمن کی یادوں کا ایک دھندلا سا عکس دیکھتا ۔مجھے ایسا لگتا گویا ایمن کی آنکھیں مجھے آسمانوں سے ٹک ٹکی باندھ کر گھور رہی ہیں ۔۔
آج بیس سال بعد اچانک ایک اسکول فنکشن میں میرا ایمن سے سامنا ہوا۔ ایمن کے لبوں پر وہی خاموشی تھی اور آنکھوں میں وہی مقناطیسی کشش۔۔۔اس نے آج بھی مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ صرف نحیف سی آواز میں میرے سلام کا جواب دیا۔
میں ایک عجیب جذباتی کیفیت سے گذرا۔ میں نے غم سے بوجھل دل کے ساتھ ابر آلود آسمان کی طرف اپنی نگاہیں دوڑائیں۔۔دور بادلوں میں ایمن کے لب کپکپا رهے تھے اور اس کی آنکھوں سے بہتے آنسؤ بادلوں کے ہمراہ زمین پر برس رہے تھے۔
ایمن ایک لمحے کو رکی۔ اس کی نگاہیں میری آنکھوں میں پیوست ہو گئیں۔ میں نے چاہا کہ وقت تھم جائے، لمحہ رک جائے اور ہم دونوں اپنی آنکھوں کے ذریعہ وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو لفظوں سے کبھی نہ کہا جا سکا۔ لیکن حقیقت کا سنگین بوجھ درمیان میں حائل رہا۔ ایمن نے دھیرے سے اپنی نظر جھکا لی۔ اس کی پلکوں پر لرزتے قطرے گویا برسنے کو تیار تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ بیس سال کا فاصلہ، بیس سال کی خاموشی، بیس سال کی محرومی اور خوابوں کا سب سرمایہ بس ایک نگاہ میں سمٹ آیا ہے۔ ہماری کہانی ادھوری رہی، لیکن اس ادھورے پن میں بھی ایک کمال کی تکمیل تھی۔ کچھ محبتیں لفظوں میں نہیں ڈھلتیں، کچھ رشتے خوابوں کے حصار میں ہی مکمل ہوتے ہیں۔
ایمن نے رخ موڑا اور بھیڑ میں گم ہو گئی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا، بادل چھٹ رہے تھے اور ہلکی دھوپ کی کرنیں زمین پر اتر رہی تھیں۔ میں نے گہری سانس لی اور دل ہی دل میں کہا،
“ایمن، تم میری زندگی کی وہ بارش ہو جس نے میرے دل کی زمین کو گیلا تو کیا، مگر کبھی ٹھہر نہ سکی۔ تم وہ خواب ہو جو جاگتے میں بھی زندہ رہتا ہے۔”
اور میں یہ سوچتے ہوئے مسکرایا کہ شاید کچھ محبتیں ختم نہیں ہوتیں، بس وقت کے پردے میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتی ہیں اور روح کے تنے کے ساتھ کسی امر بیل کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔
���
اکنگام، انت ناگ،موبائل نمبر؛9419041002