رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
غلطی
وہ صبح سویرے نیند سے جاگ کر نماز ادا کرنے کے فوراً بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں اکثر مشغول رہتی ہے۔ میرے لئے گرما گرم ہاتھ سے بنائی ہوئی عمدہ اور تازہ روٹیاں تیار کرتی ہے، گلابی رنگ کی نمکین چاے میرے سامنے رکھ کر اکثر میرے پاس ہی بیٹھی رہتی ہے۔ میرے کپڑوں کو اچھی طرح دھو کر اور استری کرکے الماری میں سجا کر رکھ دیتی ہے۔ جب بھی مجھے کہیں بازار سے کچھ خریداری کے لئے جانا پڑتا ہے یا کسی شادی یا کسی اور تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے جانا ہوتا ہے تو وہ میرے لئے بہترین اور خوبصورت کپڑوں کا خود انتخاب کرتی ہے۔ جب بھی میری طبیعت اچانک ناسازگار ہوتی ہے تو وہ خود ایک نرس کی طرح میرا خاص خیال رکھتی ہے اور وہی کچھ کھانے کے لئے پیش کرتی ہے جو طبیعت کے موافق ہو اور مضر صحت نہ ہو۔ غرض میری بیوی ایک فرمانبردار اور صالح عورت ہے جس کے لئے میں اپنے اللہ سے ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔
سلام لدین اپنے دوست رفیق کو اپنی بیوی کے بارے میں بتا رہا ہے۔
رفیق۔۔۔۔ مگر اتنے سالوں میں آپ نے میرے سامنے اس کی کبھی ایسی تعریفیں نہیں کیں ہیں۔ اچانک وہ آج کل کیسے اتنی فرمانبردار بیوی بن گئی ہے۔۔۔
سلام الدین۔۔۔ مگر غلطی میری ہی تھی نا، میں مشترکہ خاندان میں مقیم تھا جہاں میرے والدین، بھائی اور بہنیں بھی ساتھ اکٹھے رہا کرتے تھے۔
نائٹ
دلاور خان کی بیٹی نیلوفر نے گزشتہ ماہ اپنا چار سالہ نرسنگ کا ڈپلومہ کورس شہر کے ایک مشہور نرسنگ کالج سے مکمل کرلیا تھا۔ وادی کے متعدد پرائیوٹ ہسپتالوں کی طرف سے اسے جاب آفر آیا تھا اور ماہانہ تنخواہ بھی معقول تھی لیکن ہر بار دلاور خان نے نیلوفر کو یہ کہتے ہوئے وہاں کام کرنے سے منع کیا کہ ہفتے میں ایک بار نائٹ ڈیوٹی دینی تھی۔۔۔۔
میں خود اپنی بیٹی کو کیوں اور کیسے ہسپتال میں نائٹ ڈیوٹی پر جاتے ہوئے برداشت کروں گا اور وہ بھی ایک پرائیوٹ ہسپتال میں۔ مجھ سے ایسا بالکل بھی دیکھا نہ جائے گا۔ چاہے کچھ بھی ہو میں قطعاً ایسا ہونے نہیں دوں گا۔۔۔۔
دو مہینے بعد سروس سلیکشن بورڈ کی طرف سے دو سو نرسنگ کی اسامیاں پُر کرنے کی غرض سے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ نیلوفر نے بھی قسمت آزمائی کی اور تحریری امتحان میں اچھی کارکردگی دکھا کر وہ فائنل سلیکشن لسٹ میں بھی آ گئی۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد اسے تعیناتی کا حکم نامہ بھی سونپا گیا اور دوسرے ہفتے سے ہی اس نے باقاعدہ اپنے فرائض صدر ہسپتال میں انجام دینے شروع کئے۔
دو تین مہینے کے بعد دلاور خان اچانک اپنے دوست سرفراز سے بازار میں ملا۔ سرفراز کافی خوش ہوا کیونکہ اس کی بیوی کا علاج صدر ہسپتال میں ہی دو سال سے چل رہا تھا اور ڈاکٹر عاصم اس کا ہر مہینے کی پہلی سوموار کو چیک اپ کرتا تھا۔ اس نے دلاور خان سے پوچھا کہ نیلوفر کی ڈیوٹی کس وارڈ میں ہے اور اس کا ڈیوٹی روسٹر کیا ہے تاکہ ضرورت کی صورت میں اس سے رابطہ کر سکیں۔
دلاور خان۔۔۔ جمعہ اور سنیچر اس کی ایمرجنسی وارڈ میں نائٹ ڈیوٹی ہوتی ہے باقی تمام دنوں وہ وارڈ نمبر دس میں مامور رہتی ہے۔