غور طلب
ساحل جہانگیر میر
کشمیر کی وادی جسے کبھی پرندوں کی چہچاہٹ اور قدرتی دھنوں سے پہچانا جاتا تھا، آج خاموشی کی تصویر بنتی جا رہی ہے۔ صبح کے وقت جب سورج کی پہلی کرنیں پہاڑوں کو چھوتی تھیں تو فضا میں پرندوں کے جھنڈ اُڑتے دکھائی دیتے تھے۔ بلبل کی آواز، فاختہ کی کوکو، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور عقاب کی پرواز وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی تھی۔ مگر افسوس! آج یہ سب آوازیں اور مناظر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں انسان نے زمین کو سڑکوں اور عمارتوں سے بھر دیا ہے، وہیں آسمان پر بھی اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ موبائل فون ٹاورز اور دیگر برقی شعاعیں (radiations) پرندوں کی زندگی پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق موبائل ٹاورز سے نکلنے والی شعاعیں پرندوں کے دماغ اور سمت پہچاننے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پرندے اپنی پرواز کے دوران راستہ بھٹک جاتے ہیں یا کمزوری کے باعث مر جاتے ہیں۔
کشمیر جیسے خطے میں جہاں قدرتی نظام پہلے ہی جنگلات کی کٹائی اور دریاؤں کی آلودگی سے متاثر ہو رہا ہے، وہاں یہ برقی شعاعیں مزید تباہی لا رہی ہیں۔کشمیر کے دیہات میں پہلے گھروں کی چھتوں اور کھیتوں کے کنارے چڑیاں بڑی تعداد میں نظر آتی تھیں۔ بچے ان کے گھونسلے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ لیکن آج چڑیاں تقریباً نایاب ہو چکی ہیں۔ اسی طرح کبوتر، کوے اور دیگر مقامی پرندے بھی بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں پرندوں کی آبادی میں 40 سے 60 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر ہے، لیکن کشمیر جیسی قدرتی وادی میں یہ کمی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔
ترقی کے اس دور نے پرندوں کے مسکن بھی چھین لیے ہیں۔ جہاں کبھی کھیت، باغات اور درخت تھے، وہاں اب کنکریٹ کی عمارتیں اور سڑکیں ہیں۔ پرندوں کے لیے گھونسلے بنانے کی جگہیں کم ہو رہی ہیں۔ صنعتی فضلہ، زرعی کیمیائی ادویات اور پلاسٹک نے ان کی خوراک کو بھی زہر آلود بنا دیا ہے۔ دریا اور جھیلیں آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں سے خالی ہو رہی ہیں، جس سے آبی پرندے متاثر ہیں۔
ظاہر ہے کہ پرندے قدرت کے نظام کا اہم حصہ ہیں، یہ نہ صرف ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ کھیتوں کو کیڑوں سے بچانے اور بیج پھیلانے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔ پرندوں کے غائب ہونے کا مطلب ہے کہ کھیتوں میں کیڑے زیادہ ہوں گے، درختوں کی افزائش کم ہوگی اور قدرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔
کشمیر کے کسان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی، بارشوں کی بے وقت آمد اور زمین کی کمی سے پریشان ہیں۔ اگر پرندے بھی کھیتوں سے غائب ہو گئے تو یہ بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔
یہ سب کچھ دراصل ہماری اپنی لاپرواہی کا نتیجہ ہے، جس نے جدیدیت اور ٹیکنالوجی کو اپناتے وقت فطرت کو نظرانداز کیا۔ موبائل فون ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، مگر کیا ہم نے سوچا کہ ان کے پیچھے کھڑے ٹاورز ہماری فضا کو زہر آلود کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پرندوں کی آوازیں ہماری زندگی میں کتنی سکون بخش تھیں اور آج ہم ان سے محروم ہو رہے ہیں؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے پر توجہ دیں۔موبائل فون ٹاورز کی تعداد کو محدود کیا جائے اور ان کے ڈیزائن کو ماحول دوست بنایا جائے۔شہروں اور دیہات میں شجر کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ پرندوں کو گھونسلے بنانے کے لیے جگہ ملے۔زرعی ادویات کے بے جا استعمال پر پابندی لگائی جائے تاکہ پرندوں کی خوراک محفوظ ہو۔عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ پرندوں کا بچاؤ صرف ماہرین کا نہیں بلکہ سب کا فرض ہے۔حکومت اور ماحولیات کے ادارے تحقیقی منصوبے شروع کریں تاکہ برقی شعاعوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔یاد رکھیں کہ پرندوں کا آسمان سے غائب ہونا صرف فطرت کا نقصان نہیں بلکہ ہماری اپنی زندگی سے خوشی اور سکون کا چھن جانا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر کے آسمان پر پرندوں کے جھنڈ صرف تصویروں اور کہانیوں میں دکھائی دیں گے۔ جدیدیت اور ٹیکنالوجی ضروری ہیں لیکن یہ اس قیمت پر نہیں ہونی چاہئیں کہ ہماری فطرت اور پرندے غائب ہو جائیں۔
رابطہ۔9086707465
[email protected]