عذرا ؔحکاک
برف کی مانند چمکتی ،دوپٹہ اوڑھے ہوئے وہ لڑکی جو اب دلہن بنی دہلیز پر کھڑی تھی، اپنی پلکوں پر اُمید کے چراغ جلائے بیٹھی رہی۔
اُس کی خواب جیسی زندگی میں ایک سایہ ہمیشہ رہا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اُس سائے کا انتظار کر رہی تھی۔یہ ایک ایسا سایہ تھاجس کی موجودگی ہوا کی طرح محسوس ہوتی تھی۔ بے رنگ مگر زندگی بخش۔ وہ لڑکی کے بچپن کا سایہ تھا جس سے دل کے رشتے کے علاوہ بظاہر کوئی اور رشتہ نہ تھا مگر وہ ایک ایسا رشتہ تھا جو روح کا جسم سے اور پیر کا مرید سے ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا پاکیزہ رشتہ تھا جو رابندرناتھ ٹیگور کی کہانی ــ’کابلی والا‘ کے کردار رحمت کا منی کے ساتھ تھا ۔وہ اُس کی ہنسی کا شریک اور دکھوں کا ہمزاد تھا۔یہ وہ سایہ تھا جس کی باتوں میں صوفیانہ شفقت تھی اور جس کے وعدے حرفِ آخر کی مانند دل پر نقش ہو گئے تھے۔وہ ایک ایسا سایہ تھا جو بچپن کی جھولی میں بیٹھ کر کہا کرتا تھا۔
’’میں رہوں گا تیرے ساتھ۔۔۔۔۔ ہمیشہ!۔۔۔وعدہ رہا!۔۔۔اور میرا یہ وعدہ ،وعدئہ ناتمام ہے ۔۔۔یاد رکھنا!‘‘لفظوں کی یہ مالا برسوں لڑکی کے گلے میں جھولتی رہی اور وہ اسے دعاؤں کی طرح برتتی رہی۔ وہ لمحوں میں اُلجھی ایک لڑکی تھی مگر اس کے خواب کاغذی نہ تھے۔ وہ اعتبار کی مٹی سے گندھی ہوئی تھی اور اس نے جب لفظ “ہمیشہ” کا مطلب سمجھا تو اُسے وقت کی قید سے آزاد جانا۔
وقت گزرتا رہا۔زندگی کے بے رحم موسم بدلے مگر وہ سایہ مسلسل اس کے ساتھ رہا۔ ایک نامحسوس دیوار بن کرجو ہر دکھ اور ہر طوفان سے اُسے بچاتا رہامگر آج جب دستارِ وفا اس کے سر پر رکھی جا رہی تھی اور نئے سفر کی پہلی سیڑھی پر اُس نے وہی سایہ تلاشا تو خامشی نے اُس کی سماعت پر دستک دی۔ کئی سالوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ کچھ شر پسند او رریاکار لوگوں کی پیدا کی ہوئی بد گمانیوں نے اُس سائے کے دل میں اُس لڑکی کے لئے زہر بھر دیا تھا۔ وہ بار بار اُس دوری کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے پیر کی آنکھوں میں بسی اس وعدے کے رشتے کی تھکاوٹ اور بوجھ کو بھی محسوس کر رہی تھی مگر پھر دل بیچ میں آکر ٹوک دیتا تھا اور کہتا تھا کہ ناخن سے گوشت تھوڑی جدا ہوتا ہے!۔ وہ پرُ امید ہو کرایک عقیدت مند مرید کی طرح اپنے پیر ِ کامل کا انتظار کرتی رہی ۔
خوشبوؤں سے لپٹے لمحے، سنگھار سے چمکتی آنکھیں اور دل کے کسی کونے میں وہی مان اور وہی وعدہ کہ آج تو وہ ضرور پاس ہوگا جیسے ہمیشہ کہتا آیا ہے مگر آج وہ نہ آیا۔ ۔۔نہ کوئی صدا۔۔۔ فقط اک پیغام آیا۔ یہ فقط ایک پیغام نہیں تھا بلکہ یہ کسی روحانی تعلق کی رگِ جاں کا ٹنے جیسا تھا۔سرد، خشک اور زہرخند پیغام۔چھری کی طرح چبھتا ہوا پیغام اور لفظوں کی قینچی میں لپٹا ہوا پیغام ۔
’’میں نے جو کیا۔۔۔احسان تھا۔ زندگی نے رُخ بدلا اور میں نے کنارہ کشی کو بہتر جانا۔اب تیرا ہونا میری ترجیح نہیں۔ جو کچھ دیا۔۔۔ وہ احسان تھا۔۔۔۔ خالص بے لوثی نہیں۔‘‘
یہ الفاظ نہیں تھے کرب کی زبان تھی۔ لڑکی نے آنکھیں موند لیں۔ وہ وعدہ جو تقدس کی چادر اوڑھے تھا ،اب وہ یکایک مفاد کے غبار میں گم ہو چکا تھا۔وہ اِس بوسیدہ آس کے ساتھ ایک لمحے میں دلہن سے فقط ایک معمولی سی لڑکی بن کررہ گئی تھی۔اس کے اندر کچھ ٹوٹا نہیں تھا بلکہ وہ خود اندر سے منسوخ ہو گئی تھی۔دلہن بن کر وہ لڑکی نہیں بلکہ ایک خواب بن کر رخصت ہو رہی تھی اور وعدہ؟ ۔۔۔وہ وعدہ آج بھی کہیں اک کونے میں پڑی بچپن کی کتاب کے آخری صفحے پر تنہا بیٹھا سسک رہا تھا۔
رُخصتی ہوئی۔۔۔ زندگی چلی۔۔۔ لیکن یہ ایک ایسا زخم تھا جو نہ دِکھتا تھا،نہ سِلتا تھاکیونکہ وہ زخم جسم پر نہ تھا بلکہ اُس و عد ئہ ناتمام پر تھا جسے صرف اس لڑکی نے نہیں بلکہ اس کی معصومیت نے بھی سچ مانا تھا۔
���
گوجوارہ، سرینگر ، کشمیر
[email protected]