عالمی ادارہ برائے ذہنی امراض کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والے زیادہ تر دماغی امراض 24 سال کی عمر سے شروع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین ذہنی امراض کے مطابق، ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ویسے تو ذہنی امراض بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن دور حاضر میں ڈپریشن، شیزوفرینیا، جذباتی صدمات اور ڈرگ کا حد سے زیادہ استعمال کا شمار ان ذہنی امراض میں کیا جارہا ہے۔ان کا نشانہ بننے والے سب سے زیادہ دنیا بھر میں پائے جانے والے طلبہ ہیں، جن پر نہ صرف اپنی پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہےبلکہ اس کے بعد وہ معاشی تلاش کے دبائو کے ساتھ ساتھ سماجی دباؤ کا بھی شکار ہوتے ہیں۔دورِ حاضر میں طالب علم کو ہر لمحہ ہمہ جہت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جن سے طلبہ پر شروع سے ہی ایک پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی انسان کو ایک طرح سے نہ صرف تنہا کر دیا ہے بلکہ نوجوانوں میں یہ بہت سارے مسائل کی بنیادی وجہ بھی بن رہا ہے۔اس پرستم یہ کہ مسائل جس رفتار سے بڑھ رہے ،اُسی حساب سے انہیں حل کرنے کے لئے وسائل مہیا نہیں ہیں۔اس کے علاوہ گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے بھی اذیت ناک بن جاتےہیں، کیوں کہ ان کے باعث ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اگر والدین سمجھ دار ہو، تب بھی کوئی نہ کوئی قریبی رشتہ دار ذہنی دبائو میں مبتلا شخص کومزید پریشان کرنے سے باز نہیںرہتا۔جس کے نتیجے میںاُس کی زندگی میں آگے بڑھنے کا سفر رُک کرجمود کا باعث بن جاتا ہےاور یہ جمود رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتوں کے ساتھ اُس کی خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرکے ذہنی مریض بنادیتا ہے۔جبکہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اکثرنفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دبادیا جاتا ہےیہ جانے بغیر کہ دماغ کو لگنے والے مرض کا لازمی مطلب پاگل پن نہیں ہوتا ہے۔ جیسے باقی حصوں میں لگنے والے زخم یا مرض کی نوعیت کچھ اور ہو سکتی ہے لیکن دماغ چونکہ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے،جس کے دیر یا بدیر خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔مگر پھر بھی ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگ ایسے امراض پر سنجید گی سے غور نہیں کرتےاور اس کے متعلق بات کرنے ہچکچاتے رہتے ہیں،جو بعد ازاںجان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
پچھلے دس بارہ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل میں خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟اس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔معاشرے کے ہر فرد کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ارد گرد اپنے پیاروں پر نظر رکھیں ۔ کون کھانا وقت پر نہیں کھا رہا یا ٹھیک سے نہیں کھا پا رہاہے۔ کون بُجھا بُجھا سا ہے، کس کا طرزِعمل بدل رہا ہےاور کون گم سم رہتا ہے،یہ باتیں بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہیںجن کا مطلب ہے کہ ایسا ضرور کچھ ہے ،جس میں ہمارا پیارا مشکل میں ہےاور اسے ہمارے مدد کی ضرورت ہے۔اسی طرح اگر کسی نوجوان کو محسوس ہونے لگے کہ اُس میں ڈپریشن کی ابتداء ہو رہی ہے تواُسے اپنے لئے مدد تلاش کرنی چاہئے ۔اپنے قریبی دوست یا اپنے والدین سے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کرنا چاہئے۔ ڈپریشن پر قابو پانے اور ذہنی دبائو سے بچنےکے لئے یہ ایک بہترین دفاعی صورت ہےکہ کسی پر بھرسہ کرکے اس کی مدد حاصل کی جائےاور اُن لوگوں کے ساتھ رہے ،جو آپ کو خوش کریں،جن سے مل کر زندگی کا احساس ہوجائےاور جن سے مل کر جینے کا دِل کریں۔ایسے لوگوںسے بالکل دور رہیںجو آپ کو طعنے دے دے ماردیں کیونکہ دوستانہ ،حوصلہ افزانہ اور ساز گارانہ ماحول ذہنی صحت کے لئے انتہائی اہم ہے۔اس لئے ہمار افرض ہے کہ وہ کچھ کریں جس سے دوسروں کو خوشی ملے، کچھ ایسا کریں جس سے دوسروں کو راحت ملے۔اپنے ارد گرد لوگوں میں خوشیاں اورمحبتیں بانٹیں ، جہاں کوئی اُداس چہرہ دِکھے مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم کسی کے راستے کے سارے کانٹے نہیں چن سکتے، لیکن جتنا ممکن ہو وہ توکر ہی سکتے ہیں۔