ادھوری گفتگو
رات کے سناٹے میں وہ کونے میں بیٹھا تھا۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی، مگر دل بوجھل تھا۔ عادتاً موبائل کھولا۔
بیٹی کا اسٹیٹس ابھرا: سیاہ پس منظر، ٹوٹا دل، اور جملہ.
’’زندگی کبھی کبھی اجنبی لگتی ہے۔‘‘
ہاتھ لرز گئے۔
وہی بیٹی جو کل تک قہقہوں سے گھر روشن کرتی تھی، آج لفظوں میں گم کیوں ہے؟
یادوں کی جھلکیاں ابھریں: بچپن کی ہنسی، اسکول کی ضدیں اور کل رات کھانے پر خاموشی۔
کیا یہ سب اشارے تھے جو وہ نہ سمجھ سکا؟
فون کرنے کو دل بڑھا، پھر رک گیا۔
سوچا:’’کہیں وہ نہ کہے ابا میری زندگی میں دخل دے رہے ہیں۔‘‘
موبائل رکھ دیا مگر نیند غائب۔
رات بھر اسکرین پر ٹوٹا دل دیکھتا اور خود ٹوٹتا رہا۔
صبح روشنی کمرے میں آئی، مگر اس کے دل کا اندھیرا جوں کا توں رہا۔
دروازے پر آہٹ ہوئی۔
بیٹی گزری، آنکھوں کے گرد سوجن تھی۔ لگتا ہے وہ بھی رات بھر جاگی تھی۔
باپ نے لب کھولنے چاہے مگر آواز نہ نکلی۔
بس نگاہوں سے کہا۔
’’بیٹی! کاش یہ دکھ لفظوں میں نہیں، میرے کندھے پر رکھ دیتی۔‘‘
سکون
“کیا چاہیے، صاحب؟” دکاندار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
وہ شخص، جو کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا، دھیمے لہجے میں بولا، “دردِ شقیقہ کی کوئی دوا ہے؟”
“جی، یہ لیجیے۔”
دوا لیتے ہوئے وہ رُک گیا۔ جیسے خود سے مخاطب ہو، آہستہ سے بولا،
“عجیب بات ہے… سر کا درد تو دوا سے کم ہو جاتا ہے مگر دل کا بوجھ؟ وہ کہاں اُترتا ہے؟”
دکاندار نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا — وہ چہرہ جو بظاہر کامیاب دکھائی دیتا تھا، اندر سے بے سکونی کا عکس لگ رہا تھا۔
“کوئی ایسی دوا ہے جو سکون دے سکے؟”
وہ ہلکے سا مسکرایا، جیسے اپنے ہی سوال پر حیران ہو۔
دکاندار نے نرمی سے کہا،
“صاحب، سکون دوا سے نہیں، دعا سے ملتا ہے اور کبھی کبھی کسی ضرورت مند کی مدد سے بھی۔”
اس نے جیب سے نوٹوں کا بنڈل نکالا، اُسے لمحہ بھر دیکھا، پھر دھیرے سے بولا،
“تو پھر دعا کے لئے… پہلے کسی کی مدد ہی سہی۔”
یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکلا اور راہ چلتے پہلے فقیر کے کاسہ میں نوٹ رکھ دیئے۔
دور جاتے ہوئے اس کے چہرے پر کچھ اور تھا — شاید… سکون۔ یا اُس جیسا کچھ۔
خالد بشیر تلگامی
تلگام پٹن بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر; 9797711122