فہم و فراست
حمیرا فاروق
بات ذرا غور وخوض اور توجہ کی محتاج ہے کہ جس دین کا آغاز ’’ اقراء‘‘سے ہوا۔ ہم نے اسی چیز کو بھلا دیا۔ جس کی وجہ سے انسانیت عدم ہوگئی۔ کیونکہ ایک عابد سے بڑھ کر عالم کا مقام ہے بشرط یہ کہ وہ عمل کا پابند ہو کیونکہ عالم برعکس عابد کے شیطان کے بہکاوے میں فوری اسیر نہیں ہوتا، اسکو اس کے بہکاوے کا علم ہوتا ہے ۔ لہٰذا علم سے نہ صرف ہمیں واقف ہونا ضروری ہے بلکہ لیس ہونے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم ایک مہذب ،باصلاحیت اور طاقتور قوم بن کر دنیا کے سامنے پیش ہوجائیں نہ کہ رُسوا ہوکر دنیا سے روپوش ہونا پڑے ۔ہمارا حال آج کل حالات کے بالکل برعکس ہورہا ہے کیونکہ ہم ہر سمت میں احساس کم تری کے شکار ہے ۔حالات ہم سے جو تقاضہ کرتے ہیں ہم وہ کرتے نہیں ۔ ہم دن بہ دن علم سے دور ہوتے جارہے ہیں ،جس کے سبب ہم دنیا میں مفلسی ،لاچارگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اگر ہم نے اسلاف کی وراثت زندہ رکھی ہوتی تو آج ہمیں پیروں تلے روندا نہیں جاتا اور ہم دوسروں کے دیے گئے ٹکڑوں کے محتاج نہیں رہتے ۔تباہی کا پہلا باب بھی یہی ہے کہ انسان خود سوچنا ،پڑھنا اور کام کرنا چھوڑدیں ۔آج کے مسلمانوں کی ذہن سازی اس طریقے سے کی جارہی ہے کہ نصف رات کو لوگوں کے سامنے شوشل میڈیا کے ذریعے ایسی شیطانی پیشکش رکھی جاتی ہے جس سے وہ فجر کی نمازسے عاری رہتے ہیں اور قوم کا زوال بھی اسی میں ہے کہ ان میں اخلاقی بگاڑ آجائے، پھر اُس قوم پر کوئی اور ہنر اور ہتھیار آزمانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ اخلاقی بگاڑ تمام برائیوں کی جڑ ہے، اس میں غلط ٹھیک کی تمیز نہیں رہتی ۔ ہمارے ذہن اس طرح تیارکئے گئے جہاں امت مسلمہ کے ارتقاء کے باب ایسے بند کر دئیے گئے کہ زوال مقدر بن گیا ۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ان کی فکر بیدا ہوئی تو ہمارے یہ بےہودہ بازار یک لخت مسمار ہوجائیںگے۔
ہر صاحب دانش انسان ہمیشہ اپنے قوم کو علم حاصل کرنے پر اُکساتے رہے کیونکہ وہ حالات سے بالکل واقف ہوتے ہیں ۔ لیکن جب لوگ بے رغبتی کا اظہار کریں تو ان کو گھسیٹ کے لے گا کون ؟ اس لئے ہم آئے دن زیادہ پریشان اور مصیبتوں میں قید ہورہے ہیں ۔علم سے انسان زندگی کا ہر معاملہ بآسانی سلجھا سکتا ہے کیونکہ علم شعور بیدار کرتا اور ذی حِس بنا دیتا ہے ۔ آج کل اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے، یہاں علم سے بے رغبتی اور جہالت کا ہجوم رہا ،نسلوں میں جھوٹ پروان چڑھتا رہا ،دھوکے کے بازار گرم ہو گئے ،پہرے داروں کے نام پر عزتوں کو پامال کر دیا گیا ،ایمانداری کی قسمیں کھا کھا کر دین سے لوگ دور ہوتے چلے گئے ۔گویا یہاں ابتدا سے لے کر انتہا تک جہالت کو دور کرنے کے لئے جہالت کو سراہا اور عام کر دیا جاتا ہے ۔
ایک طرف سماج بیدار نہیں ہوتا اور دوسری طرف بے حیائی کا ازالہ کرنے کے بجائے اس کی امامت کی جاتی ہے ۔ نتیجہ یہی نکلا کہ معاشرہ بگڑنے سے باز نہیں آتا۔ یہاں ایک دوسرے سے محبت کرنے کے بجائے منافرت أزمائی جاتی ہے، سخاوت کے بجائے لوگوں میں دکھاوا آگیا ہے۔ حوس کے بازار ایسے گرم ہیں کہ بنت حوا کا جینا محال ہوا، ا ن کی عزتوں کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہے،گویا بے رحم معاشرے نے شریف انسان کا جینا حرام کر دیاہے ۔
ایسے معاشرے سے کیا توقع کی جائے،جس نے عورت کو تلاشِ معاش کے لئے سڑکوں اور بازاروں کی زینت بنا دیا ۔جس سے اس کی نسوانیت کا جنازہ نکل گیا۔یہاں بڑے بڑے کارخانوں میں خواتین کی بےہودہ اور ننگی تصویریں چسپاں کر دی جاتی ہیں ۔فلموں اور ڈراموں میں اداکارہ بن کر غیر مردوں کی بیویوں کا رول ادا کرتی نظر آرہی ہیں ۔گویا کہ سستے داموں میں اپنی عزت کو بیچ کر مردوں کو بہلایا جا رہا ہے جو آنے والی نسلوں کے لئےبے راہ روی کا سبب ہے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ہم علمِ دین سے محروم ہیں ۔والدین اپنے بچوں کو تو دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں لیکن دینی تعلیم جو ان کے لیے فرض ہے اور جو انسان کو باشعور بنا دیتی ہے،سے محروم رکھتے ہیں ۔
معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ جس رشتے کو مقدس نظروں سے دیکھا اور سمجھا جاتا تھا، اس میں اب وہ تقدس باقی نہیں رہا، استاد اور شاگردوں کے درمیاں غلط رشتے استوار ہو رہے ہیں ، عزت وہ احترام آنکھوں میں نہ رہا ،تعلیمی ادارے حوس کے مرکز بن گئے ۔یہ سب مغرب زدہ سیلاب ہے جس نے پوری امت کو اپنی زد میں لیا ۔ایک طرف سے مغربی اہل کاروں نے عورت کو اصل مقصد سے ہٹا کر تانیثیت کے نام پہ اس دھوکے میں رکھا کہ وہ اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کو قید سمجھنے لگی اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے نکلی ،جس کے منفی اثرات ہمارے معاشرے بالخصوص گھروں پر پڑے ۔ جب عورت آزادانہ طور پر گھر سے نکلی تو گھر اُجڑ گئے کیونکہ مرد کی نگہبان تو عورت ہی تھی، جب اس نے اپنے واجب ذمہ داری کو ترک کیا تو معاشرے میں فتنوں نے جنم لینا شروع کیا ۔جس سے ہمارا معاشرہ فتنوں کا آما جگاہ بن گیا اور جو ظلم و تشدد آج عالم نسوانیت پر ہو رہا ہے ،اس کی ذمہ دار مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین خود ہیں ، جو اسلام کی دی ہوئی عزت وجاہت کو قبول کرنے کے بجائے مغرب کے فحش گوئی کو فروغ دے کر ہر آئے دن سوشل میڈیا میں جسم کی تشہیر کرتی نظر آرہی ہے۔ اسلام نے جو تحفظ عورت کو دیا، اس سے ادیان عالم قاصر ہے لیکن عورت خود کو مستور رکھنے کے بجائے ان چیزوں کو اپنی تذلیل اور قید سمجھنے لگی ،حالانکہ شریعت کے احکام حکمت سے مملو ہے۔
جس فحش گوئی کی چادر ہمارا معاشرہ اوڑے ہوئے ہے اس کے ذمدار والدین ہیں جو بچوں کے بگاڑنے کے لیے ان کو ہر وہ چیز مہیا رکھتے ہے جو اس کو بربادی پر اُکساتا رہا ۔ بچوں کو غلط کام میں ملوث دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں ۔ بیٹی مغرب زدہ لباس پہن لیں تو اس کو روک ٹوک کے برعکس شاباشی دی جاتی ہے اور یہی والدین پھر اپنے بچوں کی شکایتیں لئےپھرتے ہیں ۔ جو علم انسان میں انسانیت اور بااخلاق ،حق و باطل میں تمیز کرنا سکھاتا ہے، ہم اس کو دقیانوس نظریہ سے دیکھتےہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ایک باپ اپنے معاشرے کو بتول کے برعکس رقاصہ فراہم کرتا ہے ۔ جو معاشرے کو بے دین اور مزید فحاشی کا مرکز بنا دیتا ہے ۔ بھلا اس بیٹی سے کیا گلہ، جس کو غلط تربیت کرنے والے خود اس کے والدین ہو ۔
ہمارا سماج اتنی بدعات اور رسومات کا پابند بن گیا کہ یہاں نکاح مشکل اور زنا عام ہوتا جا رہا ہے ۔بے علم لوگ سوشل میڈیا سے ایسے بےحیائی اور فحاشی پھیلا رہے کہ عورت کو مرد اور مرد کو عورت کی ضرورت نہیں رہتی اور پھر ان عورتوں پہ اتنا لعن وطعن اور گالی گلوج کی جاتی ہے ۔ عورت کو اتنا شعور نہیں کہ جس مرد کے لیے وہ اپنی عزت پامال کر رہی ہے ،وہی اس کو بدکردار کہتا ہے ،یہ غلط نہیں بلکہ اپنے کرموں کا نتیجہ ملتا ہے ۔ یہاں کوئی سدھرنے کا نام نہیں لیتا ،بالخصوص عورتیں خودکو اس مقام پہ لے آئی، جہاں دور جہالت کی طرح اُسے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے ۔اسلام نے عورت کو وہ سب حقوق ادا کئے جو مرد کو دئیے ۔ لیکن آج پھر سے اس صیانت کو سلب کرنے کے لیے اہل فتن کوشاں ہیں ۔ اسلام نے عورت پر ہونے والے جملہ مظالم کو توڑ ڈالاہے۔ اسلام عورت کو سکھا رہا ہے کہ آپ کا حسن اور عزت کس چیز میں پنہا ہے ۔لیکن عورت اس علم سے دور ہوکر سب بھول گئی، جس سے پوری انسانیت تباہ ہوتی جارہی ہے ۔ ماں اپنے بیٹے کو غلط کاموں سے روک نہیں پاتی اور وہ کھلے بازاروں میں کسی کی عزت کی دھجیاں اڑاتا رہتا ہے۔
اگر ماں نے اپنے بیٹے کو غلط اور ٹھیک میں تمیز کرنا سکھایا ہوتا، تو وہ شکاری کی طرح کسی پہ جھپٹ نہیں پڑتا بلکہ وہ ایک محافظ کی طرح سماج میں اپنا رول ادا کرتا۔جہاں ہر بیٹی کی عزت کو پامال کرنے کے بجائے اس کو تحفظ مل جاتا اور نسلیں آباد ہو جاتیں ۔لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کو دیگر خرافات کے بجائے خود بھی علم دین سے آراستہ ہونا ہوگا اور اپنے نسلوں کی بقا کے لئے ان کو وہ سب کچھ سکھانا ہوگا جو انسانیت تقاضا کرتی ہے،تاکہ ہماری آنے والی نسلیں مہذب ،محقق اور ایک اُمتی بن کر دنیا کے سامنے اپنی کامیابی کا علَم لہرائیں اوراپنے معاشرے کوتحفظ و امان دیں سکیں ۔
[email protected]