عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ دس ماہ قبل ہماری حکومت معرض وجود میں آنے کے باوجود بھی ہم ریاستی درجے کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا ’ہم نے پہلی کابینی میٹنگ میں ریاستی درجے کی بحالی کے لئے قرار داد منظور کی اور جو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میری پہلی ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی سے ہوئی تو میں نے سب سے پہلے یہ قرار داد ان کے سپرد کی۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ جب ریاستی درجے کی بحالی کا معاملہ 10 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ کے سامنے آئے گا تو اس کی بحالی کے لئے وقت کی ایک حد مقرر کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار پیر کو یہاں نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرنے کے دوران کیا۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے جموں وکشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے معاملے کی سماعت 10 اکتوبر کو رکھنے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا ’مجھے یہ نہیں معلوم ہے کہ کون لوگ وہاں اس معاملے کی فوری سماعت کرانے کے لئے گئے تھے،ہم چاہتے کہ اس فیصلے پر مزید دیر نہ ہوجائے‘۔
ان کا کہنا تھا’ہم بھی اب دس ماہ سے حکومت چلا رہے ہیں، پہلے دن سے ہی ہم ریاستی درجے کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں، پہلی کابینی میٹنگ میں ہم نے ریاستی درجے کی بحالی کے لئے قرار داد پاس کی، اور جو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میری پہلی ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی سے ہوئی تو میں نے سب سے پہلے یہ قرار داد ان کے سپرد کی۔‘
انہوں نے کہا ’عدالت عظمیٰ نے الیکشن کرانے کے لئے وقت کی حد مقرر کی تھی یہی وجہ کہ میں آج وزیر اعلیٰ ہوں، امید یے کہ عدالت عظمیٰ 10 اکتوبر کو ریاستی درجے کی بحالی کے لئے بھی وقت کی ایک حد مقرر کرے گی تاکہ ہمیں یہ درجہ جلد سے جلد واپس مل جائے‘۔
محبوبہ مفتی کے قیدیوں کی منتقلی کے بارے میں احتجاج کے بارے میں پوچھے جانے پر عمر عبداللہ نے کہا’یہ ٹھیک ہے لیکن یہ احتجاج سری نگر میں ہونے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جموں وکشمیر کی سکیورٹی کے فیصلے دلی میں لئے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’بہتر یہی ہوگا کہ محبوبہ مفتی دلی جا کر یہ معاملہ وزیر داخلہ صاحب کے سامنے رکھیں جس طرح ہم نے کیا‘۔
دستخطی مہم کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ مہم چل رہی ہے جب مکمل ہوگی تو ہم اس کو مرکزی حکومت اور عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھیں گے‘