بلاشبہ آج کا انسان اپنی پسند کے حصول میں اس قدر سرگرداں ہے کہ اُسےجو حاصل ہے، اُس سے بھی لا پرواہ اور لا تعلق سا دکھائی دیتا ہے۔ صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت اور نعمت ِ عظمیٰ ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اگر انسان صحت مند ہو تو ’’ایک در بند ،سو در کھلے‘‘ کے مترادف زندہ رہنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار کر اپنے لئےاور اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کی سبیل بنا ہی لیتا ہےاوراگر بیمار ہو تو دنیا کی ہر نعمت دے کراور دولت لٹا کر بھی صحت کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔سب جانتے ہیں کہ انسانی صحت اور تندرستی کا انحصار و دارو مدار معدہ کی دُرستی پر ہوتا ہے۔ جس طرح گھر بھر کے افراد کو انواع اقسام کے کھانے باورچی مہیا کرتا ہے، با لکل اُسی طرح انسانی بدن کی تمام تر غذائی ضروریات کا اہتمام اور خیال معدہ ہی رکھتا ہے۔انسان جو کچھ بھی کھاتا پیتا ہے،اُسے معدہ ہی دیگر جسمانی اعضاء تک پہنچاتا ہے۔
اس لئےسادہ،صاف اور جراثیم سے پاک کھانے پینے کی غذائیں،جن میں دودھ ،سبزیاں ،دالیں،پھل ،گوشت اور اناج شامل ہیں ،کا حدِ اعتدال میں استعمال افضل ہے۔ ناقص،ناصاف اور غیر متوازن غذا کے استعمال سے انسان ’’قوت ِ مدافعت ‘‘کمزور ہوجاتا ہے اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ظاہر ہےکہ انسانی جسم سے جڑے تمام عوارض کی افزائش یا روک تھام معدہ ہی کرتا ہے۔اسی لئے فرمانِ نبویؐ ہے،’’معدہ بیماری کا گھر ہے ، پرہیز ہر دوا سے بہتر ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو، جس کا وہ عادی ہے۔‘‘ بے شک انسانی جسم کی تعمیر اُن غذائی اجزا سے ہوتی ہے جو ہم روز مرہ کھاتے ہیں اور یہ کھائی جانے والی غذا پیغامِ شفا بھی ہوتی ہے اور باعثِ امراض بھی۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین غذا کے متوازن اور متناسب ہونے پر زیادہ زور دیتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معدہ درست ہوگا تو تمام جسم بھی درست رہے گا۔ متوازن غذائی اجزا میں وٹا منز،پروٹینز،چکنائیاں اور نشاستہ وغیرہ شامل ہیں اورمذکورہ اجزا کی کمی یا زیادتی ہی بیماریوں کا سبب بن کر بدنِ انسانی کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے۔
یاد رہے کہ مرض در اصل کسی ایک عضو کی کیفیت میں تبدیلی کا نام نہیں ہو تا بلکہ یہ کئی اعضاء کی کارکردگی میں نقص واقع ہو نے کی نشان دہی ہو تی ہے۔موجودہ دور کے سب سے خطرناک امراض ذیا بطیس،بلڈ پریشر، یوریا ،کولیسٹرول، امراضِ قلب،امراضِ گردہ، گھنٹیا، نقرس اور ہیپاٹائیٹس وغیرہ، کہیں باہر سے حملہ آور نہیں ہو تے ہیں بلکہ ان تمام امراض کی وجہ بننے والے عناصر کی ایک مخصوص مقدار کا جسم میں پایا جانا صحت کے لیے لازمی ہو تا ہے۔مقدار وں میں کمی یا زیادتی پیدا ہو نے کی ہر صورت میں مرض تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئےہمیشہ فطری غذاؤں کا استعمال کریں، طرزِ بود باش اور رہن سہن بھی فطری ہی اپنائیںاور جب کبھی بیمار ہو ں تو طریقہ علاج بھی فطری ہی آزمائیںکیونکہ فطرت ہی فطرت کے قریب تر ہے۔کیونکہ انسانی جسم کی پیدائش عین فطرت پر ہوئی ہے اور اس کی پرورش بھی فطرت پر ہی ہونی چاہیے۔حق بات تو یہی ہے کہ جب تک انسان نے فطری اصولوں کو اپنائے رکھا ،وہ ہر طرح کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ رہا، لیکن جب سے انسان کا رہن سہن،خوراک،علاج اور ماحول مصنوعی پن اورغیر فطری انداز کا شکار ہو اہے، انسان روحانی اور جسمانی بیماریوں کی لپیٹ میں آگیا ہے،جبکہ ہم اپنی خوراک میں ردو بدل کر کے خاطر خواہ حد تک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ چائے،سگریٹ اور کولا مشروبات سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔
ایسے افراد جو عادی ہوچکے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ بتدریج ان کے استعمال میں کمی کرتے جائیں۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں بلکہ جس طرح کھانا ،پینا اور سوناہماری بنیادی ضروریات ہیں، اسی طرح ورزش کو بھی اہم سمجھتے ہوئے اپنے معمولات میں شامل کریں۔ بے شک ہم غذاؤں کے انتخاب میں احتیاط کرکے ،روز مرہ معمولات میں اعتدال اپنا کر، اپنے طور و اطوار میں تبدیلی لا کر اور فطری طرزِ زندگی اختیار کر کےبہت حدتک امراض کے حملوں اور خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں اورجو روپے پیسے ہم بیماری سے پیچھا چھڑانے پر خرچ کرتے ہیں، اُسے عمدہ اور معیاری غذا کی خریداری پر صرف کریں تو بیماریوںکی تکالیف سے بچ سکتے ہیں اور اپنی صحت اور کام و کاج کے حرج سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔