بلال فرقانی
سرینگر//وادی میں جیسے جیسے سیب اتارنے کا موسم قریب آرہا ہے، کولڈ سٹوریج کی سہولیات ایک بار پھر کاشتکاروں کے لیے لائف لائن ثابت ہو رہی ہیں جو اپنی پیداوار کو محفوظ رکھنے کے لیے جلد بکنگ حاصل کر رہے ہیں۔وادی میں تقریباً 4لاکھ میٹرک ٹن کی موجودہ کولڈ سٹوریج کی گنجائش کے ساتھ، کاشتکار اور اہلکار یکساں طور پر بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع پر زور دے رہے ہیں۔پھلوں سے مالا مال مختلف علاقوں کے کاشتکاروں نے بتایا کہ موجودہ یونٹس نے انہیں مارکیٹ میں بہتر منافع حاصل کرنے میں مدد کی ہے، کیونکہ سیب کو دیر سے فروخت کرنے کے لیے ذخیرہ کرنے سے قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیب کا روایتی سیزن شروع ہونے میں تقریباًڈیڑھ ماہ باقی ہے لیکن بکنگ شروع ہو چکی ہے کیونکہ کاشتکار کولڈ سٹوریج یونٹس سے مستفید ہو رہے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کشمیر بھر میں تقریباً 85کولڈ سٹوریج یونٹ کام کر رہے ہیں، جو زیادہ تر پلوامہ، شوپیان، اننت ناگ اور سرینگر اضلاع میں واقع ہیں۔ تاہم مشترکہ صلاحیت وادی کی سالانہ پیداوار سے کم ہو رہی ہے، جو 20لاکھ سیب سے تجاوز کر جاتی ہے۔ سرکاری اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر کی باغبانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے بنیادی ڈھانچے کو توسیع کی ضرورت ہے۔ ہارٹیکلچر پلاننگ اینڈ مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے، “کولڈ سٹوریج پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ کے لیے بہت ضروری ہے،پرائیویٹ پلیئرز اور کوآپریٹیو کو سبسڈی اور نرم قرضوں کے ذریعے مزید یونٹس قائم کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔”باغبانی کی مربوط ترقی کے مشن (MIDH) اور دیگر سکیموں کے تحت، حکومت کولڈ سٹوریج کے بنیادی ڈھانچے، خاص طور پر کنٹرولڈ ایٹموسفیئر (CA) یونٹس کے قیام کے لیے 50% تک سبسڈی کی مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔عہدیدار نے مزید کہا، “ہم اگلے چند سالوں میں کولڈ سٹوریج کی صلاحیت کو مزید تین لاکھ میٹرک ٹن بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ کاشتکاروں کی مدد کی جا سکے اور فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکے‘‘۔یہ یونٹ درجہ حرارت، نمی اور آکسیجن و کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کو قابو میں رکھ کر سیب کو مہینوں تک تازہ رکھتے ہیں۔ کشمیر ویلی فروٹ گروورس اینڈ ڈیلرز یونین کے صدر بشیر احمد بشیر نے بتایا کہ کولڈ سٹوروں کو دو گناہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مال کو اس میں محفوظ رکھا جاسکے۔ انکا کہنا تھا’’باغ مالکان پہلے ہی خراب موسم سے پریشان ہیں، ایسے میں امریکہ اور چین سے آنے والا سیب انہیں مزید خسارے میں ڈال رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان درآمدات پر بھی پابندی لگائے جیسا کہ حال ہی میں برطانیہ کے سیب پر لگائی گئی۔‘‘