ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
سما سکتا نہیں پہنا فطرت میں میرا سودا
غلط تھا اے جنوں تیرا اندازہ ٔ صحرا
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید ہے جسکو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
(علامہ اقبال )
دور حاضر میں چہار دانگ عالم میں اولاد آدم کی اکثریت حصول سیم و زر کو، اپنی حیات مستعار کی معراج اور منزل سمجھ کر شب و روز، جائز و ناجائز،ہر طریقے سے، مال و دولت سمیٹنے کی فکر میں کار مگس انجام دے رہی ہے۔چشم فلک روز اول سے ہی اولاد آدم کی اس فطری کمزوری کے نتیجے میں صفہ ہستی پے رونما ہونے والے روح فرسا اور دلدوز و انسانیت سوز واقعات کا نظارہ کر رہی ہے اور ابلیس اپنے لشکر کی صفوں میں روز افزوں کثرت پے فرحان و خنداں ہے اور آج کا انسان گزشتہ اقوام کے رہزنوں سے بھی زیادہ شاطر ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر وادی کشمیر کے وازوانوں میں درندوں کا گوشت خداشناسوں کی ضیافت میں شامل نہ کیا
جاتا۔جس قوم کی صفوں میں ایسے افراد کا وجود قائم ہو، اس قوم کی روحانی موت اور اخلاقی زوال ،نوشتہ دیوار ہے اور جب انسان کا دل و دماغ مال و دولت کی ہوس کی آہنی گرفت میں آ جاتا ہے تو پھر علم و عرفاں ،قد و قامت ، حسن جمال ، پند و نصائح اسے، ہوس کی اس گرفت سے آزاد نہیں کر سکتے۔اسلامی تاریخ میں دولت کے ایک پجاری کا واقعہ موجود ہے جسکی تصدیق فرقان مجید کی آیات سے بھی ہوتی ہے اور وہ تھا قارون، جو بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ کا چچا زاد بھائی تھا۔توریت کا زبر دست قاری، حسن و جمال میں بے مثال اور پابند صلوت، اس شخص کے دل میں جب رفتہ رفتہ مالداری کا روگ لگ گیا تو اسکا اخلاق بد اخلاقی، اسکا ایمان بے ایمانی، اسکی حیا ,بے حیائی،اسکی غیرت، بے غیرتی اور اسکا رحم، ظلم و ستم میں بدل گیا۔
مال و دولت جوڑنے کی خاطر اس نے تجارت شروع کی۔ذخیرہ اندوزی، گراں بازاری اور سود خوری کی بدولت اور ظلم و جبر کے ذریعے بہت سارا مال و دولت ذخیرہ کر لیا۔اب خدا پرستی کی جگہ مال پرستی نے لے لی۔عیش و عشرت، عیاشی و بد قماشی کا دور شروع کر دیا۔بڑے بڑے محلات تعمیر کئے، جنکے در و دیوار سیم و زر کے تھے۔غلاموں اور کنیزوں کی ایک بڑی جماعت تھی، گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے چاندی اور جواہرات سے مزین کیا ہوا تھا۔غلاموں اور کنیزوں کو زمین پے گر کر قارون کی قدم بوسی کرنی پڑتی تھی۔
،خزانے اتنے بھرے تھے کہ طاقتور انسانوں کی ایک بڑی جماعت ان خزانوں کی چابیوں کا بوجھ بمشکل سہار سکتے تھے۔
دولت کے نشے میں مدہوش قارون ہے ، حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔اس دور کا غریب طبقہ قارون کے مالا دولت کو قارون کی سعادتمندی سے تعبیر کرتا تھا اور مال و زر کی فروانی کے لئے بے چین رہتا تھا۔
قارون اس مال و دولت کو رب کی عطا ماننے سے انکار کرتا تھا بلکہ اسے اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیتا تھا۔دولت کی محبت نے اسے اسقدر اندھا کر دیا کہ اس نے، اس دولت میں خالق و مخلوق کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جب حضرت موسیٰ نے قارون کو اپنی دولت کا ہزراواں حصہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے کہا تو قارون نے اسکا حساب لگایا اور ہزارواں حصہ بھی ایک کثیر رقم بنتی تھی جسکو ادا کرنے کے لئے اسکا نفس امارہ آمادہ نہ ہوا ۔زکوٰۃ کی ادائیگی تو دور کی بات تھی بلکہ قارون نے اس زمانے کی ایک بد چلن عورت کو ایک کثیر معاوضے کے عوض حضرت موسیٰ سے بدکاری کا الزام عائد کرنے کے لئے آمادہ کر دیا تاکہ اسکے مال سے زکوۃ کی ضرب نہ پڑے۔ موقعہ واعظ و تبلیغ کا تھا۔بنی اسرائیل کا جم غفیر تھا۔ ادھر حضرت موسیٰ اس بہتان کی خبر سنتے ہی سجدے میں گر پڑے اور روتے بلکتے الله رب العزت سے استغاثہ شروع کردیا۔دعا قبول ہوئی اور زمین کو حضرت موسیٰ کے حکم کے تابع کر دیا۔اسی بھری محفل میں اس عورت نے اس الزام کو قارون کی سازش بتا کر حضرت موسیٰ کو بے گناہ بتایا۔موسیٰ نے زمین کو حکم کیا کہ قارون کو نگل جاؤ۔پھر حکم دیا اسکے ہم خیالوں اور اسکے خزانوں اور محلات کو نگل جاؤ۔ لوگوں کے ایک جم غفیر نے بچشم خود دیکھا کہ نگل گئی زمین قارون کو اور اسکے محلات اور خزانوں کو !
قارون کے انجام بد کو دیکھ کروہ جو کبھی قارون کی دولت کو قارون کی سعادتمندی سمجھتے تھے، تائب ہوئے ۔
تاریخ نے اس منظر کو ہماری عبرت کے لئے محفوظ کردیا لیکن تاریخ سے سبق لینا ہی ہم بھول گئے۔ اسی لئے اب ہماری منفی سوچ میں، عزت کا معیار ،تقویٰ نہیں، کردار نہیں، گفتار نہیں، دستار نہیں، رفتار نہیں، اطوارنہیں بلکہ دولت ہے۔ اس دلدل میں پھنسے کے لئے ہم بہت بے چین ۔
اسی لئے علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ہے ؎
لالہ چمن آلودہء رنگ است ہنوز
سپراز دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
معاشرے کو اس صورتحال سے نکالنے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔اس وبائی مرض سے بچنے کے لیے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ بنیادی طور ہم سب انسان ہیں اور اس سے بڑا کوئی اعزازنہیں۔لیکن اس سوچ کو پیدا کرنے کے لئےہمیں اپنی نسلوں کو اخلاقی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا ورنہ ہماری رگ و پے میں مال و دولت کی محبت گھر بنالے گی اور ہم ابدی حسرت لے کر آغوش فنا میں داخل ہو جائینگے اور پھرقارون اور اسکے خزانوں کی حقیقت ہی کیا، یہاں ارض و سما کی رونقیں فنا ہو نیوالی ہیں۔یہاں انسانی زندگیوں کے چراغ گل ہونےمیں زیادہ دیر نہیں لگتی۔یہاں اِترانے اور اَکڑنے والوں کا انجام نشان عبرت بن جاتا ہے۔یہاں ظالموں ہے قدرت کے تازیانے برستے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھیں اور اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیں اور مہلت کے ان لمحات میں خود شناسی اور خدا شناسی کی مشق کریں ۔فرض شناسی کو اپنی زندگی کا معیار بنا کر اپنی انسانیت کا ثبوت پیش کریں۔
رابطہ۔9858018662.