تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے اُن معاشرتی اصولوںکو پسِ پُشت ڈالتی ہے ،جن سے اُس کے اخلاق،کردار اور اجتماعی شعور جُڑا ہوتا ہےتو قدرت اُسے زوال اور تباہی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جو حالات و واقعات جنم لے رہے ہیں، وہ محض انفرادی گناہوں کا معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی فکری و اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ایسے کئی واقعات محض خبروں کی سرخی نہیں بنتے بلکہ ہماری تہذیبی حا لت ِ زار کی گواہ بن جاتے ہیں۔ ہم بحیثیت مسلم اُمہ اپنے زوال کے اسباب کو سمجھیں، توبہ و اصلاح کی طرف لوٹیں اور اپنے انفرادی و اجتماعی وجود کو اپنے خالق و مالک کے احکامات کے مطابق سنوارنے کی سعی کریں۔چنانچہ آئے روز مختلف نوعیت کےواقعات کی جو خبریں اخبارت کی زینت بنتی ہیں،سوشل میڈیا پر اُن خبروں پر شدید بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
بعض افراد ان واقعات کو معاشرتی زوال کی علامت قرار دیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ ان کو فرد کی آزادی یا نجی زندگی کے معاملات کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ایسے حساس موضوعات پر اظہارِ رائے کرتے وقت ہم نہایت سنجیدگی، ذمّہ داری اور فکری پختگی کا مظاہرہ کریں، تاکہ ہم معاشرتی بگاڑ کی صحیح تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کے مؤثر تدارک کے پہلو بھی اُجاگر کر سکیں۔کیونکہ جب کسی معاشرے کی گلیوں میں بھوک ناچنے لگے، جب ماؤں کی گودیں اُجڑنے لگیں اور والدین کی پیشانیاں فکر ِ روزگار میں شکن آلود ہو جائیں، تو سمجھ لیجیے کہ قوم محض معیشت کی نہیں بلکہ روح و ضمیر کی سطح پر بھی زوال کا شکار ہو چکی ہے۔ آج نہ صرف ہمارے یہاں کے بیشتر لوگوں کے لئے روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی انسانی ضروریات نایاب ہو چکی ہیں بلکہ بہت سے پڑھے لکھے نوجوانوںکو روزگار کی حصولیابی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ بازاروں میں ہر شے ملتی ہے مگر عزّتِ نفس اور وقار شاید کہیں بھی دستیاب نہیں۔ جس سے ہمارے معاشرےکے اجتماعی انحطاط کی نشاندہی بخوبی ہوجاتی ہے۔
ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں،جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمارا زوال محض معیشت کا ہی نہیں بلکہ اخلاقیات کا بھی ہے۔جس کے نتیجے میںمعاشرے کی روح میں ایساخالی پن آچکاہے، جس میں اب نہ احساسِ زیاں باقی رہا ہے اور نہ ہی تبدیلی کی کوئی تڑپ۔آج ہم جس راستے پر کھڑے ہیں، وہاں سوال محض کسی فرد یا کسی طبقے کی لغزش کا نہیں رہا بلکہ پورے نظامِ فکر و نظر کی خرابی کا ہو چکا ہے۔قومیں وہی زندہ اور تابندہ رہتی ہیں جن کے رہنما منزل کے نشان کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ مگر جب وہی رہنما خود راستہ بھول جائیں تو کارواں کی سمت بگڑ جانا ایک فطری نتیجہ ہے۔ جس طبقے کو راستہ دکھانے والا سمجھا جاتا ہے، اگر اس کے اندر ہی اندھیرے بسیرا کر لیں تو پھر چراغ جلانے والوں کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ معاشرے میں اخلاقی زوال کسی زلزلے یا آندھی کی طرح اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک طویل خاموش اور مہلک عمل ہوتا ہے۔نتیجتاًہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر صرف اپنے مطلب کی دنیا بساتا ہے اور اجتماعی شعور خوابِ غفلت میں ڈوبا رہتا ہے، اُن کےدل و دماغ بنجر بن جاتے ہیں،جس کے باعث اُن کے اخلاقی اقدارآہستہ آہستہ پست و خست ہوجاتے ہیں،اُن کے شرم و حیاء کے چراغ بُجھ جاتے ہیںاور باقی صرف سناٹا رہ جاتا ہے۔اب بھی لمحات باقی ہیں اوریہ لمحہ ہم سب کے لیے ایک آئینہ ہے، ایک ایسی شفاف مگر تلخ تصویر ،جس میں ہمیں اپنی اصلیت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر گامزن ہیں؟ ہماری اجتماعی کشتی کس دھارے میں بہہ رہی ہے؟ اگر ہم نے آج اپنے اخلاقی وجود کو نہ سنوارا، اگر ہم نے اجتماعی ضمیر کو جگانے کی کوشش نہ کی تو کل ہم گم گشتہ قوم کے طورپر صرف تاریخی کتابوں میں باقی رہیں گے۔