زاویہ نگاہ
راقف مخدومی
میں کشمیر میں جاری گوشت کے بحران کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا۔ گوشت اور کشمیریوں کا ایک الگ ہی رشتہ ہے۔ کشمیریوں کے لیے گوشت صرف کھانا نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔ جب میں گوشت اور کشمیر کے اس تعلق کو جانتا ہوں، تو پھر کیا وجہ بنی کہ میں نے اپنا ارادہ بدل لیا؟ میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سکرول کر رہا تھا۔ میرے ٹائم لائن پر ایک ٹوئٹ بار بار نظر آئی۔ میں نے اسے نظر انداز کیا کیونکہ آج کل فحش ٹوئٹس کو بہت زیادہ ہائپ ملتا ہے۔ لیکن جب میں نے پوری ٹوئٹ پڑھنے کا فیصلہ کیا تو میری دنیا ہل گئی، کیونکہ میری نظر ’’خفیہ طور پر ریکارڈ کیا گیا‘‘ کے الفاظ پر پڑی۔ ایک لڑکی اپنی دوست کے بارے میں بتا رہی تھی کہ اسے اس کے بوائے فرینڈ کے دوست نے ریکارڈ کیا۔ ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ وہ چاروں (لڑکی، اس کا بوائے فرینڈ، اس کی دوست اور بوائے فرینڈ کا دوست) ایک ساتھ باہر گئے تھے۔ دونوں دوستوں نے گاڑی سے اُتر کر لڑکی اور اس کے بوائے فرینڈ کو تنہائی دی۔ وہ لکھتی ہے کہ جب دونوں دوست گاڑی سے اُترے، تو بوائے فرینڈ اور اس کی گرل فرینڈ گاڑی میں قریب آئے اور بوائے فرینڈ کے دوست نے اسے ریکارڈ کر لیا۔ لڑکی جو اس واقعے کو بیان کر رہی تھی، لکھتی ہے کہ اس نے ایک موقع پر اُسے روکنے کی کوشش کی ،کیونکہ اس نے دیکھا کہ اس کی دوست (جو ریکارڈ کی گئی) کو بوائے فرینڈ کے دوست نے زبردستی نیچے اتارا۔ لیکن جب انہوں نے اسے بلیک میل کر کے پیسے کمانا شروع کئے، تو اس نے لڑکے کی مدد کی اور جو کچھ ہو رہا تھا ،اس سے لطف اندوز ہونے لگی۔ وہ لڑکی مزید لکھتی ہے کہ اس نے اپنی دوست سے تمام بل ادا کروائے اور اس کے پیسوں پر عیاشی کی۔ وہ یہیں نہیں رُکی، وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور ایسی لڑکی ملے تاکہ وہ اس کے پیسوں پر بھی عیاشی کر سکے۔
ایک عورت کو مرد کی طرف سے ہراساں کرنے سے روکنے کے لئے بہت سارے قوانین موجود ہیں۔ لیکن عورت کی طرف سے عورت کو ہراساں کرنے کا کیا؟ سپریم کورٹ نے زبردست تشویش کا اظہار کیا کہ کس طرح سیکشن 498A آف IPC کو مردوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس سیکشن کو مرد اور اس کے خاندان کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس واقعے میں سب سے زیادہ چونکانے والی بات یہ ہے کہ دوستوں نے دوستوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ہم اکثر اپنے دوستوں پر اپنے خاندان سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خاندان سے زیادہ چیزیں شیئر کرتے ہیں۔ اس کہانی کو جھوٹ کہا جا رہا ہے، لیکن کون سا باشعور انسان ایسی ٹوئٹ کرے گا اور پھر اسے تفریح قرار دے گا؟
یہ ٹوئٹ اپنی نوعیت کی واحد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ ایسی فحش کہانیوں کے ساتھ فحش ٹوئٹس سامنے آتی ہیں۔ اس میں کوئی خاص جنس موردِ الزام نہیں ہے۔ ایک مقابلہ چل رہا ہے کہ کون زیادہ فحش کہانی سنائے گا۔ ایکس کی ادائیگی نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ لوگ جتنا زیادہ فحش ہوتے ہیں، اتنی ہی زیادہ رسائی ملتی ہے اور زیادہ رسائی کا مطلب ہے زیادہ ادائیگی۔ لوگ عزت بیچ کر رسائی حاصل کر رہے ہیں اور کشمیر اس سے پیچھے نہیں ہے۔ فحاشی کے بارے میں سوچیں، اور آپ کو وہ کشمیر میں مل جائے گی۔ کوئی معاشرہ ایسی فحاشی نہیں چاہتا، لیکن ’’جدیدیت‘‘ کے نام پر ہم نے تمام اخلاقی اقدار کھو دی ہیں۔ ایکس جان بوجھ کر فحش مواد کو فروغ دیتا ہے۔ فحش مواد کا آپ کے دماغ پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ یہ آپ کو نہ تو بہادر رکھتا ہے اور نہ ہی عقلمندی سے سوچنے دیتا ہے۔ ہم نے اکثر سنا ہے کہ غیر شادی شدہ لڑکی کے حاملہ ہونے کے اعلان کے بعد خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ یہ سب مغرب کے فروغ کردہ بوائے فرینڈ۔گرل فرینڈ کلچر کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اسے کامیابی سے فروغ دیا اور ہم اس پروپیگنڈے کے ہتھے چڑھ گئے۔ ایک نوجوان کہتا ہے کہ وہ ’’اداس‘‘ ہے، اور جب آپ پوچھتے ہیں کہ کیوں، تو وہ کہتا ہے کہ ’’اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔‘‘اس کا عجیب و غریب جواز یہ ہے کہ ’’شام کو میں اکیلا ہوتا ہوں، کوئی بات کرنے والا ہونا چاہیے۔‘‘ جب وہ مسلمان جسے اللہ نے قرآن دیا، یہ باتیں کہتا ہے، تو دوسروں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ جدیدیت نے نوجوان نسل کو برباد کر دیا ہے۔ اللہ قرآن میں سورہ الاسراء کی آیت 32 میں فرماتے ہیں: ’’زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ واقعی شرمناک عمل اور برا راستہ ہے۔‘‘ یہاں ہمیں خود کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ قرآن یہاں زنا کی بات نہیں کرتا، بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے۔ یعنی ہر اس ذریعے سے منع کیا گیا ہے جو زنا کی طرف لے جائے۔ آیت کا آغاز ’’ولا‘‘ سے ہوتا ہے۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ’’لا‘‘ زور دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ نے نہ صرف منع کیا بلکہ سختی سے زنا کے قریب جانے سے روکا ہے اور زنا صرف جسمانی تعلق نہیں ہے۔ علماء نے بیان کیا ہے کہ زنا کی مختلف اقسام ہیں: ہاتھوں کا زنا، آنکھوں کا زنا، ہونٹوں کا زنا، منہ کا زنا، پاؤں کا زنا اور کانوں کا زنا۔ ہم سب قرآن کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہیں اور اپنی سہولت کے مطابق اسے ڈھالتے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ جب علماء قرآن کی تفسیر لکھتے ہیں، وہ ایک مخصوص اصولوں کی پیروی کرتے ہیںجو ہمیں معلوم نہیں ہوتے۔
ہم آخری زمانے میں ہیں اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو نشانیاں بتائی تھیں، وہ دن بہ دن کھل رہی ہیں۔ جب نبی کریم ؐ نے اپنے صحابہ کو قیامت کے فتنوں کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کیسے یا کیوں ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہم ان سب سے کیسے محفوظ رہیں گے۔ ہمارے پاس قرآن ہے جو ہمیں رہنمائی دیتا ہے کہ کیسے محفوظ رہنا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم قرآن کو اسی طرح فالو کریں جیسے صحابہ کرتے تھے، ورنہ سزا کے لیے تیار رہیں۔
(مضمون نگار، قانون کے طالب علم اور حقوق کے کارکن ہیں)
[email protected]