میر شوکت پونچھی
کشمیر کی وادی، جہاں ہر موسم ایک شاعرانہ سحر بکھیرتا ہے، جہاں سیبوں کے باغات اپنی سرخی سے دل موہ لیتے ہیں، زعفران کی مہک ہواؤں میں ایک عطرِ بہار پھیلاتی ہے اور ڈل جھیل کی لہریں رات کے سناٹے میں چاندنی سے ہمکلام ہوتی ہیں، آج کل ایک نئے’’عطر‘‘ کی آغوش میں ہے۔ یہ عطر نہ گلاب کی پتیوں سے کشیدہ ہے، نہ ہی کسی پھول کی مہک سے آراستہ۔ یہ ہے’’روٹن میٹ‘‘ کا عطر — وہ گوشتی خزانہ جو ہوٹلوں کے فریزرز میں وقت کی محبت میں اس قدر گھل مل گیا کہ اب اس کی خوشبو تاریخ کے اوراق سے اٹھتی ہے۔ اس کا رنگ؟ بس اتنا کہہ لیجیے کہ وہ سرخی، جو کبھی بیگمات کے رخساروں پر قورمے کے خواب جگاتی تھی، اب ماضی کے زرد پن کی گواہی دیتی ہے، جیسے کوئی پرانا خط جو برسوں سے صندوق میں دبا پڑا ہو۔
یہ قصہ اس وقت شروع ہوا جب محکمہ فوڈ سیفٹی کے چند افسران، جو عموماً اپنے دفتروں میں کاغذات کی دھول جھاڑتے اور چائے کی چسکیوں میں دن گزارتے ہیں، نے ایک دن عزم کیا کہ وادی کے پرتکلف ہوٹلوں کی ’’سیر و سیاحت‘‘ کی جائے۔ بس پھر کیا تھا، چھاپوں کی ایک لہر سی اٹھی، جیسے کوئی طوفانِ نوح فریزرز کے دروازوں پر دستک دینے آیا ہو۔ فریزر کھلتے گئے اور ان سے ایسی چیزیں برآمد ہوئیں کہ جنہیں دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہ گوشت کسی عہدِ عتیق سے تعلق رکھتا ہو۔ کچھ ٹکڑوں پر برف کی ایسی تہیں جمی تھیں کہ وہ جغرافیائی پرتوں سے مشابہت رکھتی تھیں، ہر تہہ ایک دہائی کی داستان سنا رہی تھی۔ کچھ گوشت کی شکل ایسی تھی کہ جیسے وہ نوحؑ کی کشتی سے اُتارا ہی نہ گیا ہو، اور کچھ کی خوشبو بتا رہی تھی کہ یہ ’’یادگار لمحات‘‘ برسوں سے سردی کے گلے لگے ہوئے ہیں، جیسے کوئی عاشق جو معشوق کے وعدے کے انتظار میں جم گیا ہو۔ہوٹل مالکان، جن کے چہروں پر عام دنوں میں خود اعتمادی کا ایک عالم فروزاں ہوتا ہے، اس دن کچھ یوں گھبرائے کہ جیسے ان کے رازوں کی پٹاری کو کسی نے تالا توڑ کر کھول دیا ہو۔ ایک مالک جن کا ہوٹل ڈل جھیل کے کنارے سیاحوں کی آمدورفت کا مرکز تھا، نے معصومیت کا نقاب اوڑھ کر کہا:’’یہ گوشت پرانا نہیں، بس ہم اسے ایک طویل میرینیٹ کے عمل سے گزار رہے تھے،پانچ سال سے!‘‘جب ایک افسر نے، جس کے چہرے پر حیرت اور طنز کا ملغوبہ سمایا تھا، پوچھا کہ’’یہ کون سا ذائقہ ہے؟‘‘ تو جواب ملا:’’ذائقہِ وقت! جو چیز وقت کی دسترس سے بچ کر زندہ رہ جائے، وہی اصلی ہوتی ہے۔ ہم اسے ایک نادر ڈش بنانے کی سعی کر رہے تھے۔‘‘افسر نے اپنی نوٹ بک میں کچھ کریدتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، یہ ذائقہ ہم لیبارٹری بھیج دیں گے، دیکھتے ہیں کہ وقت کی یہ میراث کتنی زہریلی ہے۔‘‘دوسری طرف ایک اور ہوٹل کے مالک، جن کے فریزر سے ایسی چیزیں برآمد ہوئیں کہ جن پر برف کی تہہ جیسے کوئی قدیم خطاطی تھی، نے لوڈشیڈنگ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ وہ بولے:’’دیکھیے جناب، یہ سب بجلی کی بندش کا شاخسانہ ہے۔ جب بجلی آتی ہی نہیں، تو فریزر کیسے چلے؟ فریزر نہ چلے تو گوشت کیسے تازہ رہے؟ ہم تو خود اس گوشت کے اسیر ہیں، اس کی بدبو ہماری قسمت کا تمغہ ہے!‘‘ایک رپورٹر نے، جس کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی، لقمہ دیا: ’’تو پھر آپ اسے کیوں سرو کر رہے ہیں؟‘‘مالک نے شرمندگی سے نظریں جھکاتے ہوئے کہا: ’’جناب، وادی میں ہر چیز کو ایک موقع ملتا ہے۔ اگر ہم اس گوشت کو موقع نہ دیں، تو یہ کس کام کا؟ ہم نے سوچا کہ مصالحوں کی جادوگری سے اس کی بدبو کو خوشبو میں بدل دیں گے۔‘‘رپورٹر نے اپنا قلم روکتے ہوئے سوچا کہ یہ جملہ اس کے مضمون کا عنوان بنے گا: ’’کشمیر میں گوشت کو بھی دوسرا موقع۔‘‘اس ہنگامے کے بیچ محلے کے مشہور کردار بابا رشید جو خود کو’’کشمیر کا زندہ ضمیر‘‘ کہتے ہیں، ایک ہوٹل کے باہر جمع ہجوم کو خطاب فرما رہے تھے۔ ان کی داڑھی ہوا میں لہرا رہی تھی، جیسے کوئی پرچم جو وادی کی عزت کی حفاظت کے لیے بلند کیا گیا ہو۔ ان کا لہجہ اس قدر پرجوش تھا کہ لگتا تھا جیسے وہ کسی عظیم جلسے میں قوم کو جگا رہے ہوں۔ انہوں نے فرمایا:’’اے وادی کے باسیو! یہ گوشت کوئی عام گوشت نہیں۔ یہ ہماری تہذیب کی امانت ہے، ہمارے ماضی کا ایک درخشاں ورق۔ یہ وہ گوشت ہے جو وقت کے طوفانوں میں بھی اپنی جگہ پر ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہا۔ یہ گوشت نہیں، یہ ہمارا عزم ہے، ہماری استقامت کی داستان ہے!‘‘ہجوم سے ایک نوجوان، جس کے ہاتھ میں چائے کا گلاس تھا، نے آواز لگائی: ’’بابا جی، یہ عزم نہیں یہ تو حیاتیات کی لیبارٹری کا نمونہ ہے جو شاید کسی سائنسدان نے بھول سے فریزر میں چھوڑ دیا!‘‘بابا رشید نے اس کی طرف ایک گہری نظر ڈالی، جیسے کوئی صوفی اپنے مرید کی نادانی پر رحم کھائے اور بولے: ’’بیٹا، تم جوان ہو، تمہیں کیا معلوم کہ وقت کس طرح چیزوں کو پختہ کرتا ہے؟ یہ گوشت اگر فریزر میں نہ ہوتا، تو ہم اپنی تاریخ سے محروم ہوتے۔‘‘
ہجوم میں سے ایک عورت، جس نے اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے یہ سب سنا، بولی: ’’بابا جی، اگر یہ تاریخ ہے، تو اسے عجائب گھر میں رکھیں، ہمارے دسترخوان پر نہیں!‘‘یہ سن کر ہجوم میں قہقہے گونج اٹھے، اور بابا رشید نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، ہم عجائب گھر والوں سے بات کریں گے۔‘‘جب یہ قصہ سوشل میڈیا پر پہنچا، تو وادی کا ہر شخص یک دم نقاد، طنز نگار اور کہانی گو بن گیا۔ ایک ٹویٹ وائرل ہوا:’’کشمیر کی برف تو تازہ ہے مگر ہوٹل کا گوشت تاریخ کی برف میں دفن ہے۔‘‘
ایک اور صارف نے لکھا:’’یہ روٹن میٹ نہیں، یہ ’’ریٹرن میٹ ‘‘ہے، — بار بار واپس آنے والا، جیسے سیاسی وعدوں کی بازگشت یا بجلی کی لوڈشیڈنگ کی ستم ظریفی۔‘‘ایک میم بن گیا، جس میں ایک فریزر سے نکلتے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو دکھایا گیا تھا اور کیپشن تھا: ’’جب تمہیں پتہ چلے کہ تمہارا قورمہ 2015 کا ہے۔:‘‘سوشل میڈیا پر ایک ہیش ٹیگ #HaramMeat بھی ٹرینڈ کرنے لگا جب فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ کچھ ہوٹلوں میں نہ صرف گوشت پرانا تھا بلکہ اس کے ذرائع بھی مشتبہ تھے۔ نہ کوئی اجازت نامہ، نہ ہائیجین کی پابندی، نہ رسید کا عالم۔ بس گوشت تھا اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ جیسے وہ خود اپنی حالت پر نوحہ کناں ہو۔ ایک صارف نے لکھا: ’’یہ حرام میٹ صرف شریعت کے معنی میں نہیں، یہ تو ہماری جیبوں کا بھی خون ہے۔ ایک پلیٹ قورمے کے دو ہزار روپے، اور وہ بھی تاریخ کے اوراق سے اٹھایا ہوا!‘‘ایک اور نے طنز کیا: ’’کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کا نیا طریقہ: ہر پلیٹ میں تاریخ کا ایک ٹکڑا، ہر کاٹ میں ماضی کی ایک بو!‘‘
ہوٹلوں کے باورچی، جو عام طور پر اپنی چھریوں اور مصالحوں کے جادو سے وادی کی فضا کو معطر کرتے ہیں، اس دن خاموشی کے عالم میں تھے، جیسے کوئی شہنشاہ اپنی سلطنت کے زوال پر سوگ منا رہا ہو۔ ایک باورچی جس کا نام گلزار تھا، ایک کونے میں بیٹھا اپنی چھری کو تراش رہا تھا، جیسے وہ اسے وقت کے زخموں سے آزاد کرنا چاہتا ہو۔ ایک رپورٹر نے اس سے پوچھا:’’گلزار بھائی، آپ کو پتہ تھا کہ یہ گوشت اتنا پرانا ہے؟‘‘گلزار نے ایک لمبی سانس لی، جیسے وہ اپنی ساری زندگی کی کہانی ایک سانس میں سنانا چاہتا ہو، اور بولا، ’’بیٹا، ہم باورچی ہیں، ہمارا کام پکانا ہے۔ گوشت نیا ہو یا پرانا، ہم اسے مصالحوں کی چادر اوڑھا کر پلیٹ تک پہنچاتے ہیں۔ یہاں تو خیالات بھی پرانے ہیں مگر لوگ انہیں چبا جاتے ہیں۔ گوشت تو پھر بھی گوشت ہے۔‘‘رپورٹر نے اس جملے کو اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور سوچا کہ شاید یہ وادی کی پوری سرگزشت کا خلاصہ ہے۔ویٹروں کی زبانیں بھی اس دن کھل گئیں۔ ایک ویٹر، جس کا نام شاہد تھا، گاہکوں سے ہنستے ہنستے باتیں کر رہا تھا، جیسے وہ کوئی راوی ہو جو وادی کی کہانیوں کو زندہ رکھتا ہو۔ ایک سیاح نے پوچھا:’’یہ گوشت کتنا پرانا ہے؟‘‘شاہد نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’سر، یہ اتنا پرانا ہے کہ جب یہ فریزر میں گیا تھا، تب ڈالر پچاس روپے کا تھا۔‘‘
پاس کھڑا ایک مقامی شخص بول اٹھا: ’’اور جب یہ پلیٹ میں آئے گا، تب ڈالر شاید دو سو کا ہو جائے!‘‘
یہ سن کر سب ہنس پڑے، مگر شاہد نے پلٹ کر کہا: ’’سر، پریشان نہ ہوں، ہمارے قورمے کا ذائقہ اتنا تیز ہے کہ آپ کو تاریخ کی بو نہیں آئے گی، بس مصالحوں کی مہک دل کو چھو لے گی۔‘‘
ہوٹل انڈسٹری کے صدر جناب فاروق صاحب نے بھی اس ہنگامے کے بیچ ایک پریس کانفرنس بلائی، جیسے کوئی جرنیل اپنی فوج کو شکست کے بعد سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ان کا لہجہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ لگتا تھا جیسے وہ کسی قومی بحران پر خطاب فرما رہے ہوں۔ انہوں نے کہا:’’ہماری ہوٹل انڈسٹری ایک عظیم امتحان سے گزر رہی ہے۔ یہ روٹن میٹ کوئی جرم نہیں بلکہ ایک قربانی ہے۔ ہم اپنے گاہکوں کو وقت کا ذائقہ چکھانا چاہتے تھے۔ وقت کا ذائقہ ہمیشہ کچھ کھٹا ہوتا ہے، مگر اس میں ایک گہرائی ہوتی ہے، ایک تاریخ ہوتی ہے۔‘‘ایک رپورٹر نے، جس کے ہاتھ میں مائیککے ساتھ ایک شرارتی مسکراہٹ تھی، پوچھا: ’’سر، کیا آپ خود یہ گوشت کھائیں گے؟‘‘فاروق صاحب نے ایک لمحے کے لیے رُک کرجیسے کوئی فلسفی اپنی بات کے وزن کو تول رہا ہو، کہا: ’’دیکھیے، ہم تو اب چائے اور کڑک بسکٹ پر گزارا کر رہے ہیں۔ گوشت تو سیاحوں کے لیے ہے، وہ اس کی قدر کریں گے۔‘‘یہ سن کر ہال میں قہقہے گونج اٹھےاور ایک رپورٹر نے اپنا کیمرہ بند کر کے کہا، ’’یہ پریس کانفرنس نہیں، یہ تو ایک تماشا ہے!‘‘
محکمہ فوڈ سیفٹی کے ایک افسر، جن کا نام عبدالرشید تھا، نے چپکے سے ایک رپورٹر کو بتایا:’’ہم نے تو کئی ہوٹل بند کرنے کا سوچا تھا، مگر پھر خیال آیا کہ وادی میں سیاحت کا حال پہلے ہی نازک ہے۔ اگر ہم یہ گوشت ضبط کر لیں تو ہوٹل والوں کا’مین کورس‘ ہی چلا جائے گا۔ پھر وہ سیاحوں کو صرف چائے اور کڑک بسکٹ پیش کریں گے اور سیاح بھاگ جائیں گے۔‘‘رپورٹر نے پوچھا: ’’تو آپ کیا کریں گے؟‘‘عبدالرشید نے ہنستے ہوئے کہا: ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان ہوٹلوں کو ایک ہفتے کا وقت دیں گے کہ وہ اپنے فریزر صاف کریں۔ ورنہ ہم خود آ کر اس ’تاریخ‘ کو عجائب گھر بھیج دیں گے، جہاں یہ اپنی اصلی جگہ پر رہے گی۔‘‘
گاہکوں کا ردعمل بھی ایک تماشا تھا۔ کچھ نے شکایتیں درج کرائیں، کچھ نے پیسے واپس مانگے، مگر اکثریت نے اسے ایک تفریح سمجھا۔ ایک سیاح جو دہلی سے آیا تھا، نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ پر لکھا: ’’کشمیر کا سب سے ونٹیج ڈش! #RottenMeatChallenge‘‘اس کی پوسٹ پر کمنٹس کی بھرمار ہو گئی۔ ایک نے لکھا: ’’بھائی، یہ ونٹیج نہیں، یہ تو اینٹیک ہے!‘‘ایک دوسرے نے لکھا: ’’اگلی بار کشمیر جاؤں گا تو اپنا فریزر ساتھ لے جاؤں گا، کم از کم اپنا گوشت تو تازہ ہوگا!‘‘یوں یہ روٹن میٹ کا قضیہ وادی کی سیاست، معیشت، تہذیب اور مزاح کا ایک نیا باب بن گیا۔ اب جب بھی برف پڑے گی اور چولہوں پر قورمے کی خوشبو فضا میں رقص کرے گی، لوگ ایک دوسرے سے ہنستے ہوئے پوچھیں گے:’’بھائی، یہ قورمہ روٹن تو نہیں نا؟‘‘اور جواب ملے گا: ’’نہیں نہیں، یہ تو تازہ ہے، کل کا ذبح ہے۔‘‘مگر دل ہی دل میں سب جانتے ہیں کہ کچھ چیزیں — چاہے وہ گوشت ہو، وعدے ہوں یا سیاست — وقت کے فریزر میں پڑتے ہی اپنی اصل کھو دیتی ہیں۔ چاہے ان پر کتنا ہی مصالحہ لگایا جائے، ان کی بدبو ماضی کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ یہ وادی کی نئی تمثیل ہے — جہاں بہار کے پھول تازہ کھلتے ہیں، مگر دسترخوان پر کبھی کبھی تاریخ کے مردہ چراغ بھی آ بیٹھتے ہیں اور ان کی لو بجھانے کے لیے نہ فوڈ سیفٹی کافی ہے، نہ میڈیا کی چہ میگوئیاں، نہ بابا رشید کی پرجوش تقریریں۔ بس ایک چیز کافی ہے، وادی کا وہ مزاح جو ہر بحران کو ایک کہانی بنا دیتا ہے اور ہر کہانی کو ایک سبق۔