محمد تسکین
بانہال// ضلع رام بن کے قصبہ بانہال میں آنکھوں کی بینائی سے محروم افراد کیلئے اپنی نوعیت کی دوسری بریل قرآن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں جموں و کشمیر کے علاوہ ملک اور بیرون ملک سے آئے افراد نے شرکت کی ۔یہ دو روزہ کانفرنس دارالعلوم نعمانیہ بانہال میں اتوار کی دوپہر بعد اپنے اختتام کو پہنچی ۔ اس کانفرنس کی صدارت ہندوستانی نژاد جنوبی افریقہ کے شہری مولانا حاجی محمد حسین عبد القادر مرچی نے کی جو جنوبی افریقہ میں نابیناؤں کیجئے ایسے ایک سکول کو چلا رہے ہیں جس میں دنیا بھر کے قریب 35ممالک سے تعلق رکھنے والے بصارت سے محروم افراد کو تعلیم و تربیت اور جدید ٹیکنالوجی اور سائنس سے منور کیا جا رہا ہے۔بصارت سے محروم افراد کیلئے اس منفرد بریل کو جموں و کشمیر ہینڈی کیپڈ ایسوسی ایشن سرینگر، مدرسہ نورالقرآن مہاراشٹر اور دارالعلوم نعمانیہ بانہال نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا ۔ اس کانفرنس کا مقصد جموں و کشمیر کے تقریباً 70ہزار بصارت سے محروم افراد کو بااختیار بنانا اور ان کی تعلیم و تربیت کو فروغ دینا تھا۔ مدرسہ نورالقرآن مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے منتظم مولانا فرید سلیہ نے کہا کہ 2011میں جموں و کشمیر میں بصارت سے محروم افراد کی تعداد 58ہزار تھی جو اب بڑھ کر 70ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بصارت سے محروم افراد میں سے اکثر کو تعلیم یا روزگار میسر نہیں اور یہ لوگ گھروں تک محدود ہوکر صرف گھریلو کام کرتے ہیں جو والدین سکھاتے ہیں اور ان کیلئے موقع ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دارالعلوم نعمانیہ بانہال کے مہتمم مفتی ذوالفقار احمد سے جڑ جائیں تاکہ ایسے افراد کو تعلیم و تربیت کے ان پروگراموں سے جوڑا جا سکے ۔ مولانا محمد سجاد ندوی جامعہ ریاض الصالحین بوٹینگوسوپور نے اس موقع پر مفتی ذوالفقار احمد کی کاوشوں سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ وہ جموں و کشمیر میں بریل کے ذریعے قرآنی تعلیمات کے خواہاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں معذور افراد کے کئی ادارے موجود ہیں مگر دینی اور خاص طور پر قرآنی تعلیم بریل سسٹم کے ذریعے نا کے برابر کام کیا گیاہے اور کشمیر جیسے اہم خطے میں بریل کے ذریعے قرآنی تعلیم پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔ مہاراشٹر میں زیر تعلیم اور بہار سے تعلق رکھنے والے بریل قرآن کے نابینا پروف ریڈر محمد ثاقب نے کہا کہ تعلیم نے ان کی زندگی بدل دی ہے اور بریل کی تعلیم نے ہماری برادری کو باقی معاشرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا کیا ہے ۔ انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سمیت دیگر ڈیجیٹل آلات کی مدد سے قرآن اور دیگر علوم اور کرتب پیش کئے۔ انہوں نے کہا آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ان کی زندگی مزید آسان بنا دی ہے۔ ہندوستانی نژاد جنوبی افریقہ کے شہری مولانا حاجی محمد حسین عبد القادر مرچی نے کہا کہ یہ کام دشوار اور چلینجز سے بھرپور ہے اور سرکار کو نابیناؤں کیلئے اپنے طور اور ہمیں اپنے طور کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی ہر ممکن مدد کیلئے نجی طور اور تنظیمی طور سامنے آنا چاہئے کیونکہ نابینا لوگوں کو ہمارے سماج نے بھلا دیا ہے ۔ انہوں نے کہا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت نے نابیناؤں کیلئے آسانیاں پیدا کی ہیں اور اس سے انہیں زندگی کو بہتر طریقے سے آگے بڑھنے میں مدد مل رہی ہے۔ کانفرنس میں ایک سو سے معذور افراد نے حصہ لیا جن میں بیشتر جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ بریل قرآنی کانفرنس میں موجود ممبر اسمبلی بانہال حاجی سجاد شاہین نے کہا کہ اس پروگرام میں شرکت ان کیلئے باعث اعزاز ہے اور نابیناؤں کی حوصلہ مندی اور صلاحیتیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ معذور ہیں اور اس پروگرام نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہوںنے شرکاء کو یقین دلایا کہ وہ ان نابیناؤں کیلئے تعلیم و تربیت کے اس پروگرام کی ہر ممکن مدد کیلئے تیار ہیں اور نابیناؤں کی تعلیم و تربیت کیلئے جدید آلات خریدنے کیلئے سجاد شاہین نے اپنے کانسچونسی ڈیولپمنٹ فنڈس سے دو لاکھ روپئے کی رقم دینے کا اعلان کیا ۔کئی مقررین نے کہا کہ والدین اپنے نابینا بچوں کو بوجھ سمجھتے ہیں مگر یہاں سے یہ پیغام گیا ہے کہ نابینا افراد کسی صورت بوجھ نہیں ہیں اور تعلیم و تربیت کے زریعے وہ اپنی منزلوں کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس موقع پر بصارت سے محروم کئی شرکاء نے بریل کتابیں پڑھنے، کمپیوٹر اور موبائل فون چلانے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت میں مہارت کا بھی مظاہرہ کیا۔دارالعلوم نعمانیہ بانہال کے ایڈمنسٹریٹر مفتی ذوالفقار احمد نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو قرآنی علم کے ساتھ ساتھ جدید علوم جیسے سائنس اور ریاضی بھی سکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس بصارت سے محروم افراد کو بااختیار بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔شرکاء میں پامپور کے پیرا ایتھلیٹ اور کرکٹر عرفان احمد بھی شامل تھے جنہوں نے 2015سے ملک بھر میں کرکٹ کے کئی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ عرفان نے کہا کہ نابینا افراد کے خلاف منفی سوچ صرف جموں و کشمیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت کے دوسرے حصوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خدا کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے ایسے والدین دیے جنہوں نے مجھے آگے بڑھنے دیا اور میرے نابینا ہونے کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا۔