غلام قادر جیلانی
حال ہی میں ضلع کشتواڑ کے گاؤں چسوتی میں بڑے پیمانے پر بادل پھٹنے سے 70 سے 80 افراد اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے اور 100 سے زائد لوگ زخمی ہو گئے، جن میں بہت سے لوگوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ ابھی بھی بہت سے لوگ ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں جنہیں بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر بچاؤ کارروائی جاری ہے۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب مچھیل ماتا مندر کی سالانہ یاترا پر جانے کے لیے بہت سے یاتری چسوتی میں جمع ہوئے تھے۔ ایک اور سانحہ ضلع کٹھوعہ میں اس وقت پیش جب وہاں بادل پھٹنے اور سیلابی ریلوں کی باعث ابتدائی اطلاعات کے مطابق 4 افراد کی موت اور 6 دیگر زخمی ہوگئے جموں و کشمیر میں اس طرح کے دل دہلانے والے قدرتی حادثات کوئی نئی بات نہیں۔
اس سے پہلے بھی بادل پھٹنے کے تباہ کن واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے کئی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس سے قبل ضلع رام بن کے علاوہ ضلع گاندربل کی گوجرپتی پرینگ کے اوپری علاقوں میں بادل پھٹنے سے سیلابی ریلوں (Flash Flood) کے تباہ کن واقعات رونما ہوئے ہیں۔ 2014 کے تباہ کن سیلاب کی تلخ یادیں ابھی بھی ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑ رہی ہیں جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 285 لوگ جان بحق ہونے کے علاوہ بہت سارا مالی نقصان بھی ہوا، اس سیلاب سے کھڑی فصلوں اور مکانات کو شدید نقصان ہوا۔ اب سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان قدرتی آفات کی شدت اور تباہ کن اثرات کو بڑھانے میں انسان کا کیا عمل دخل ہے؟ انسان اتنا خود غرض اور لاپرواہ کیوں ہو رہا ہے کہ بار بار ایسے واقعات رونما ہونے کے باوجود بھی باز نہیں آتا؟ ترقی کے نام پر تباہی ان حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بادل پھٹنے کے زیادہ تر واقعات ہمالیائی سلسلہ میں آباد بستیوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں میں غیر قانونی سرگرمیوں سے نہ صرف وہاں کا قدرتی ماحول متاثر ہوا ہے بلکہ ان علاقوں میں آباد بستیاں بھی خطرے میں آ گئی ہیں۔ ڈوڈہ اور کشتواڑ میں مقیم حساس لوگوں کے مطابق وہاں غیر قانونی طور پر پہاڑوں سے پتھر نکالنے کا عمل جاری ہے اور دریائے چناب کے کناروں پر بہت سارے سٹون کریشر تعمیر کئے گئے ہیں۔ اگر پہاڑوں سے پتھر نکالنے کا یہ غیر قانونی عمل جاری رہا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہاں کے مقامی باشندے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
قدرتی آفات کی شدت اور اثرات کو بڑھانے میں انسان کی ایک اور لاپرواہی یہ بھی ہے کہ انسان نے قدرتی ماحول کے توازن کو اپنی خود غرضی اور لالچ کی خاطر بری طرح سے بگاڑ دیا ہے۔ قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور تودے گرنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، مگر ان کے اثرات کو کم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان میں سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ ہم ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھیں۔ کارخانوں اور گھروں سے نکلنے والے کچرے اور فاضل مادے کو ٹھکانے لگائیں اور ایسی چیزوں کے استعمال سے گریز کریں جو ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ہوں۔ انسان نے دریاؤں کے راستے بھی بند کئے ہیں، دریاؤں کے کناروں پر ناجائز تجاوزات بہت حد تک بڑھ گئے ہیں۔ ندی نالوں میں بھی پانی کا معقول بہاؤ نہیں رہا۔ میرے گاؤں شمناگ میں نالہ دودھ گنگا سے نکلنے والی ایک بڑی ندی جسے ہمارے علاقے میں شمناگ کول کے نام سے جانا جاتا ہے، بہتی ہے۔ اس سے بہنے والے پانی کااستعمال نہ صرف ہم سینچائی بلکہ نہانے اور پینے کے لیے بھی کرتے تھے۔ مجھے اسے دیکھ کر اپنا بچپن یاد آتا ہے کہ کس جوش اور ولولے کے ساتھ ہم اس ندی کے پانی میں ڈبکیاں لگا کر نہاتے تھے۔ آج یہ ندی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ علاقے کی غلاظت اور کوڑا کرکٹ اسی کی نظر ہو رہا ہے اور کوئی پرساںِ حال نہیں۔ ایسے میں قدرتی آفات جیسے سیلاب کا آنا ناگزیر ہے۔آئے روز کشمیر کے نالوں میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی طور پر مایننگ (Mining) جاری ہے۔ ہمارے علاقے میں نالہ دودھ گنگا اور نالہ شالی گنگا اس کی بڑی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
قدرتی آفات کی ایک اور وجہ جنگلات کا کٹاؤ اور جنگلات کے رقبے میں روز بروز کمی ہونا ہے۔ سائنسی اصولوں (Scientific norms) کے تحت ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے جغرافیائی رقبے کے 33 فیصد پر جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے یہاں جنگلات کا رقبہ سکڑ کر 20 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے۔ ایسے میں موسم کا اچانک اور غیر ضروری طور پر تبدیل ہونا ایک لازمی بات ہے۔
اگرچہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے ادارے اور محکمے جن میں محکمہ جنگلات اور محکمہ ماحولیات قابلِ ذکر ہیں، قائم کئے گئے ہیں، جن پر سرکاری خزانے سے زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے تاہم زمینی سطح پر خاطر خواہ نتائج نہیں آ رہے ہیں۔ ان اور متعلقہ محکموں کو اور زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ماحولیاتی تقریبات کا انعقاد کرنا کافی نہیں بلکہ ان تقریبات میں کئے جانے والے بڑے بڑے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
سرکار کو انسانی آبادی کے بچاؤ کے لیے خاصکر ان علاقوں میں جہاں قدرتی آفات کے خطرات زیادہ لاحق ہونے کے امکانات ہیں، ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں وہاں کے لوگوں کو قدرتی آفات سے لڑنے کی تربیت، مکانات کے مضبوط ڈھانچے ، وقتاً فوقتاً لوگوں کو قدرتی آفات کی پیشگی شناخت اور انتباہ، غیر قانونی طور پر ریت، مٹی اور پتھر نکالنے پر روک وغیرہ شامل ہیں۔
قدرتی آفات ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اگر عوامی شعور بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں احساسِ ذمہ داری قائم ہو، تو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات بہت حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پھر سےکوئی قدرتی آفت مالی نقصان خاص کر انسانی جانوں کے نقصان کا باعث نہ بنے اور ہمیں پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔