وسیم فاروق وانی
جملی کے پانی پر شام کا سنہرا عکس بکھرا ہوا تھا۔ شیری کے پل پر لوگوں میں گھر پہنچنے کی ہوڑ لگی ہوئی تھی ، مگر منظور نہ جانے کس سوچ میں گم ،ایک اک قدم ایسےا ٹھارہا تھا کہ جیسے گھر میں کوئی اس کا منتظر بھی نہ ہو۔
اُس کے ہاتھوں میں صدیوں پرانی عادتوں کی لکیریں تھیں، لیکن چہرے پر ایک مانوس سی مسکراہٹ، جسے گاوں کا ہر گھر بخوبی پہچانتا تھا ۔
پہچانے بھی نہ کیوں؟محلے میں کسی کا کوئی چھوٹا سا کام ہو، دوستوں کا ہاتھ بٹانا ہو،بازار سے کسی کے لئے سودا سلف لانا ہو، یا بیمار کے لئے دوا… گائوں میں سب کی زبان پر ایک ہی جملہ آتا:منظور کر لے گا۔
پوراگاوں منظور کو ایک بھروسے مند سہارا تصور تو کرتا تھا مگرخود منظور کی اپنی زندگی میں کیا چل رہا ہے اس کی کسی کو کوئی فکر نہ ہوتی۔
کوئی اس سے کبھی یہ نہ پوچھتا کہ منظور تمہاری کیسی کٹ رہی ہے ؟
اس سے کوئی کام کروانا ہو تو گزارش کا انداز بھی نہ اپنا یاجاتا بس حکم سا دیدیا جاتا تھا ۔
اُس روز حاجی صابر، جو محلے کے رئیس تھے، دروازے پر آ گئے۔
منظور، کل میرا بیٹا سرینگر جا رہا ہے۔ صبح گاڑی تم لے کے جانا اور واپسی میں میرے کچھ سامان بھی اٹھا لانا۔
منظور نے آہستہ سے کہا، ـــــحاجی صاحب، امی کی صحت خراب ہے کل اسپتال لے جانا تھا انکو ۔
ارے اسپتال تم پرسوں چلےجانا ، کل میرا یہ کام کردو!!
اس بےتکلفی میں چھپی زبردستی نے منظور کو چپ کروا دیا۔ شام ڈھلے وہ جہلُم کے کنارے جا بیٹھا،سرد پانی سے اٹھتی سرد ہوا کی لہریں اس کے دل کو بھی سرد کر رہی تھیں۔
اس کے کانوں میں اپنے مرحوم کشتی بان والد کی بات گونج رہی تھی،
بیٹا، کشتی کسی کوبھی دریا پار کراسکتی ہے مگر اگر کوئی زبردستی چڑھنے لگے، تو الٹ کر سب کچھ دریا برد بھی کرسکتی ہے۔
اسی وقت کنارے سے شور اٹھا۔ ایک چھوٹا لڑکا، جو مچھلی پکڑ رہا تھا، پھسل کر پانی میں جا گرا۔ لوگ دوڑ پڑے مگر بہاؤ تیز تھا۔ منظور نے لمحہ بھر سوچے بغیر چھلانگ لگا دی۔ پانی سرد تھا مگر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ بچے کو کنارے پر لے آیا۔
لوگ شاباشی اور دعائیں دینے لگے۔ حاجی صابر بھی بھیڑ میں موجود تھے۔
منظور نے بھیگی قمیض نچوڑتے ہوئے کہا، یہ میں نے اپنی مرضی سے کیا کیونکہ میرا دل چاہا۔ مہربانی کبھی جبری نہیں ہوسکتی۔دریا کی طرح آدمی بھی اپنی مرضی سے بہتا ہے۔۔۔اور یہی اس کی خوبصورتی ہے۔
���
سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛7006041789