ایم شفیع میر
کشتواڑ/نو سالہ دیونشی ان سینکڑوں یاتریوں میں شامل تھی جو مچیل ماتا مندر کی یاترا کے آخری مرحلے کے لیے یہاں جمع ہوئے تھے جب جمعرات کو قیامت ٹوٹ پڑی۔ میگی پوائنٹ کی ایک دکان پر بادل پھٹنے سے اچانک آنے والے فلیش فلڈز کے باعث مٹی اور ملبے میں دب جانے کے بعد وہ کئی گھنٹوں بعد اپنے چچا اور گاؤں والوں کی مدد سے زندہ نکالی گئی۔دیونشی لرزتی آواز میں اپنی آپ بیتی بیان کرتی ہوئے یوں کہتی ہے ’’میں سانس نہیں لے پا رہی تھی۔ میرے چچا، بوجھی اور دیگر لوگوں نے لکڑی کے تختے ہٹائے اور ہم سب باہر نکل آئے۔ ماتا نے ہمیں بچا لیا‘‘۔
ہر زندہ بچنے والے کے پاس موت کے منہ سے نکل آنے کی ایک الگ کہانی ہے۔دیونشی مزید کہتی ہے’’ہم ایک میگی شاپ پر رکے تھے۔ لوگوں نے کہا بھاگ جاؤ لیکن ہم نے سوچا یہاں محفوظ ہیں، اس لیے رک گئے،چند منٹ میں ہی ایک بڑا مٹی کا تودہ دکان پر آ گرا جس نے تباہی مچادی۔
اسی طرح 32 سالہ سنیہا بھی اب تک اس حقیقت پر یقین نہیں کر پا رہی کہ وہ زندہ ہے۔ سامان گاڑی میں رکھنے کے چند لمحے بعد ہی وہ اپنے چار اہل خانہ کے ساتھ سیلابی ریلے بہہ گئی، مٹی میں دب گئی اور ایک گاڑی کے نیچے کچلی گئی۔سنیہا کہتی ہے ’’میں گاڑی کے نیچے کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھی، چاروں طرف لاشیں تھیں کچھ بچے جن کی گردنیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اعضا کٹے ہوئے تھے۔ مجھے اپنی زندگی کی کوئی امید نہیں رہی تھیلیکن ماتا نے ہمیں بچا لیا،وہ مزید کہتی ہے کہ کس طرح اس کے خاندان اور گاؤں کے لوگوں نے اسے ملبے سے نکالا۔ بعد میں اسے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔
سنیہا مزید کہتی ہے ’’میرے والد پہلے آزاد ہوئے، پھر مجھے نکالا۔ میں نے اپنی ماں کو بجلی کے کھمبے کے نیچے سے کھینچ کر نکالا۔ وہ نیم بے ہوش اور زخمی تھیں،وہ بتاتی ہے کہ کچھ لوگ بہہ کر چناب میں جاگرے ۔ ہر طرف نعشوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا ۔ پورا پہاڑ نیچے آ گیا تھا، حتیٰ کہ چھتو ماتا مندر کا ٹھاکر جی کا مجسمہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بہہ گیا‘‘
سنیہا کہتی ہیں کہ ’’حکام، پولیس، فوج، سی آر پی ایف اور مقامی لوگوں کی بروقت کارروائی نے بے شمار زندگیاں بچا لیں۔ایک گھنٹے کے اندر گاڑیاں زخمیوں کو اسپتال لے جانے پہنچ گئیں۔ اگر وہ دیر سے آتے تو مزید لوگ مر جاتے‘‘۔
ادھمپور کے سدھیر نے بتایا کہ وہ 12 افراد کے گروپ میں تھے اچانک ایک ایسا طوفان آیا یوں لگا جیسے آسمان اور زمین ایک ساتھ گر پڑے،دھماکے کے بعد پورا علاقہ دھول اور دھند سے بھر گیا۔ میری اہلیہ اور بیٹی دوسرے لوگوں کے نیچے دب گئیں۔ پل کی تعمیر کے مقام پر میں نے درجنوں لوگوں کو چناب میں بہتے دیکھا۔ اِس ہلاکت خیز سیلاب نے سب کچھ سیکنڈوں میں دفن کر دیا۔
سدھیر مزید کہتے ہیں زخمی افراد کے زخم نہایت ہولناک تھے خون آلود لاشیں، مٹی کے مبلے میں لتھڑے انسانی جسموں کے اعضا، ٹوٹی پھوٹی پسلیاں درد ناک منظرپیش کررہے تھے ۔
نانک نگر کی سنیتا دیوی نے بتایا’’میں بھاگ رہی تھی کہ گر پڑی اور کچھ عورتیں مجھ پر گر گئیں۔ بجلی کے کھمبے نے مجھے زور کا جھٹکا دیا۔ میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی رہی۔ ہم سب زندہ بچ گئے… ماتا رانی نے ہمیں بچا لیا‘‘۔
جموں کی ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ وہ ایک گاڑی کے ٹائر کو پکڑ کر بہنے سے بچیں۔ وہ کہتی ہیں ایک پولیس اہلکار نے مجھے بچایا، مگر میری بہن ابھی تک لاپتہ ہے‘‘۔
وشالی شرما، جو 15 رکنی گروپ میں تھیں، کہتی ہیں کہ وہ ایک دکان میں پناہ لینے گئے لیکن مٹی اور پتھروں کے تودے سے دکان گر گئی۔ “میں پتھروں کے بیچ پھنس گئی۔ مجھے نہیں معلوم میرے والدین کہاں ہیں۔
رات گئے تک فوج، پولیس، سی آر پی ایف اور مقامی لوگ زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے اور لاشوں کو ملبے سے برآمد کرنے میں مصروف رہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ بروقت ردعمل نے مزید اموات کو روکا۔
ایک ریسکیو اہلکار نے کہا، یہ موت کے خلاف ایک جنگ رہی ہے۔
ایس پی پری دیپ سنگھ نے کہا کہ تمام فورسز بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن میں شریک ہیں۔ ایس ڈی آر ایف، فوج، سی آر پی ایف، سی آئی ایس ایف، پولیس سب میدان میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا، خاص طور پر گنگا رام کی قیادت میں 20 سے زائد بائیکرز نے زخمیوں کو حموری پہنچایا کیونکہ سڑک نالے میں بہہ جانے سے کٹ گئی تھی۔ان کے بغیر مزید جانیں ضائع ہو جاتیں۔
اچانک آئے اِس خوفناک سیلابی ریلے نے چند سیکنڈ میں چسوتی گاؤں کو کھنڈر میں بدل دیا ۔ بلند پہاڑوں پر بادل پھٹنے سے آنے والے فلیش فلڈز نے مکانات، گاڑیاں اور زندگیاں نگل لیں، اور بچ جانے والوں کو صدمے اور غم میں مبتلا کر دیا۔
مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ بذریعہ ہوائی سفر کشتواڑ
بارش کے باعث چوسٹی میں آنے والے سیلابی ریلے کی جگہ روانہ ہوتے ہوئے، میں جموں سے بھارتی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکلا، مگر ایک گھنٹہ پرواز کے بعد لینڈنگ ممکن نہ ہونے پر ہیلی کاپٹر واپس لوٹ آیا۔
اس کے فوراً بعد میں سڑک کے راستے متاثرہ مقام کی طرف روانہ ہوگیا ہوں تاکہ جلد از جلد پہنچا جا سکے، حالانکہ یہ ایک طویل، پہاڑی اور دشوار گزار راستہ ہے اور موسم بھی خراب ہے۔