مختار احمد قریشی
نماز انسان اور اس کے رب کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو روحانی تعلق، خلوصِ نیت اور عاجزی کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہ محض جسمانی حرکات یا زبانی کلمات نہیں بلکہ دل کی حاضری، فکر کی پاکیزگی اور روح کی بندگی کا عملی مظہر ہے۔ نماز دراصل اللہ کے حضور اپنی عاجزی پیش کرنے کا ذریعہ ہے، ایک ایسا راستہ جو انسان کو دنیاوی فتنوں، خواہشات اور نفس کے جال سے آزاد کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری نماز واقعی بندگی کا راستہ ہے یا ہم نے اسے محض ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے؟
دورِ حاضر میں جہاں دنیاوی مصروفیات اور مادی خواہشات نے انسان کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، نماز اکثر صرف عادت یا ذمہ داری کی طرح ادا کی جاتی ہے۔ ہم تیز رفتاری سے رکوع و سجود کرتے ہیں، زبان کلمات دہراتی ہے لیکن دل کہیں اور بھٹک رہا ہوتا ہے۔ جب نماز دل کی گہرائیوں میں خشوع و خضوع پیدا نہ کرے، جب اس کے ذریعے ہم رب کی قربت محسوس نہ کریں، تو یہ محض رسمی عمل بن کر رہ جاتی ہے۔ نماز کا مقصد اللہ کی یاد کو دل میں بسانا، برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کی طرف راغب ہونا ہے، لیکن اگر نماز کے بعد بھی ہم جھوٹ، فریب، حسد اور نفرت میں مبتلا ہیں تو پھر یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری نماز میں کہاں کمی رہ گئی ہے۔نماز کی اصل روح یہ ہے کہ انسان خود کو رب کے سامنے بندہ سمجھ کر جھکائے، اپنی تمام تر حاجات اسی کے سامنے پیش کرے اور اس یقین کے ساتھ اُٹھے کہ رب نے اس کی دعا کو سن لیا ہے۔ یہ عمل دل کی صفائی اور روحانی سکون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز اگر بندگی کے شعور کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے، لیکن اگر یہ صرف ایک رسم بن جائے تو اس کی تاثیر ماند پڑ جاتی ہے۔
نماز محض ایک عبادت نہیں بلکہ زندگی کا ایک مکمل نظام اور انسان کی فکری تربیت کا ذریعہ ہے۔ قرآن میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نماز برائی اور فحاشی سے روکتی ہے۔ لیکن یہ تب ممکن ہے جب نماز شعور اور دل کی حاضری کے ساتھ ادا کی جائے۔ اگر ہم نماز کو محض وقت پر کچھ آیات دہرانے اور رسمی حرکات کرنے کا نام سمجھیں، تو اس کی اصل روح کھو جاتی ہے۔بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں بہت سے لوگ نماز کو صرف ایک ذمہ داری یا روایت سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ اجتماعی دباؤ یا خاندانی ماحول کی وجہ سے نماز پڑھتے ہیں، لیکن دل اور دماغ اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نماز کے اثرات اپنی زندگی میں نہیں دیکھ پاتے۔ نماز صرف اس وقت زندگی بدل سکتی ہے جب انسان اسے دل کی گہرائیوں سے، عشق اور محبت کے جذبے کے ساتھ ادا کرے۔نماز صرف پانچ وقت کی عبادت نہیں بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی کو اللہ کے حضور سر بسجود رکھنے کا ایک پیغام ہے۔ اگر نماز کے بعد انسان کی عادتیں، رویے، بات چیت اور اخلاق بہتر نہ ہوں تو اسے اپنی نماز کی کیفیت پر غور کرنا چاہیے۔ اصل بندگی وہ ہے جو نماز کے بعد بھی انسان کے اعمال میں جھلکے۔
نماز کی اہمیت صرف ایک عبادت ہونے تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کے کردار کی تعمیر، اخلاقی تربیت اور روحانی سکون کے لیے سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ جو شخص نماز کو اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کرتا ہے، اس کی شخصیت میں عاجزی، صبر اور شکر گزاری کی خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ نماز انسان کو یاد دلاتی ہے کہ وہ خودمختار نہیں بلکہ اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس احساسِ بندگی سے انسان کے رویے میں نرمی، محبت اور انصاف پیدا ہوتا ہے۔ نماز نے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی معاشروں کی اصلاح کی ہے۔ نماز ترک کرنا دراصل انسان کی زندگی سے روحانیت اور دین کے نظام کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ نماز پڑھ کر بھی ظلم، بے ایمانی اور جھوٹ میں مبتلا رہتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نماز صرف ظاہری حرکات اور کلمات تک محدود ہے۔
نماز کا مقصد یہ نہیں کہ محض پانچ وقت کی مشقت پوری کر کے انسان خود کو کامیاب سمجھ لے بلکہ یہ ہے کہ ہر نماز انسان کے دل کو جھنجھوڑے، اسے دنیاوی خواہشات کی غلامی سے آزاد کرے اور اس کے اندر احساسِ جواب دہی پیدا کرے۔ اگر نماز سے یہ مقصد حاصل نہ ہو تو وہ محض ایک رسم رہ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم نماز کو سمجھ کر پڑھیں، دل اور دماغ کو ربّ کی یاد میں حاضر کریں اور ہر رکوع و سجود کو اپنی بندگی کا اعلان بنائیں۔
رابطہ۔8082403001