اِکز اقبال
کہتے ہیں: ’’جہاں پیٹ کی بھوک عقل پر غالب آ جائے، وہاں ضمیر سڑنے لگتا ہے۔‘‘ مگر یہاں تو معاملہ اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ چند روز قبل سری نگر میں 1200 کلو گرام گلا سڑا گوشت پکڑا گیا۔ اس کی بدبو، رنگت اور حالت ایسی تھی کہ اگر ضمیر والے ذرا سا سوچیں تو رات بھر نیند نہ آئے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ گوشت ہے جو پکڑا گیا۔ وہ گوشت جو ہماری پلیٹوں میں، قیمہ کے کبابوں ‘ رستوں اور گشتابوں میں، برگر اور ہاٹ ڈاگ کے پٹّیوں میں یا شادی کی دیگوں میں جا چکا، — اُس کا کوئی حساب کون دے گا؟
اب ذرا تصور کیجیے۔وہی کباب اور رستہ جو آپ شام کے کھانے کے ساتھ شوق سے کھا رہے ہیں، وہی برگر جو آپ کے بچے اسکول سے آتے ہی مانگتے ہیں، وہی گرم گرم ہاٹ ڈاگ جو آپ کسی سڑک کنارے اسٹال سے خریدتے ہیں،اگر یہ سب سڑے ہوئے گوشت سے بنے ہوں تو؟یہ خیال ہی متلی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر افسوس کہ حالیہ دنوں میں یہ کوئی دور کی کوڑی نہیں بلکہ ہمارے اپنے بازاروں میں ایک ہولناک حقیقت کے طور پر بے نقاب ہو چکی ہے۔ سری نگر میں بارہ سو کلو سڑا ہوا گوشت برآمد ہوا۔ جی ہاں! بارہ سو کلو! اور شاید یہ صرف برف کے پہاڑ کی نوک ہے، کیونکہ اس کے بعد بھی کئی جگہوں سے مشتبہ گوشت پکڑا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ کوئی معمولی انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک ایسا زخم ہے جو ہمارے معاشرے کے چہرے پر لگا ہے۔ یہ سوال ہے کہ ہماری صحت، ہماری نسلیں اور ہمارا کل، کس قدر ارزاں داموں نیلام ہو رہا ہے۔ یہ سوال بھی کہ کیا واقعی ہمیں 1200 کلو سڑا ہوا گوشت دیکھنا پڑا تاکہ ہم جاگ سکیں؟ کیا ہمیں ہمیشہ کسی بڑے سانحے کے بعد ہی ہوش آتا ہے؟
یہ سب سن کر اور دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے آخر اپنی صحت اور اپنے بچوں کی زندگی کو کس کے ہاتھ بیچ دی ہے؟ چند سکوں کے لالچ میں ہماری زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے ہیں۔یہ بات کسی فلسفی کی کتاب سے نہیں، بلکہ روزمرہ کے تلخ حقائق سے اخذ کی گئی ہے کہ جب منافع کا ترازو انسانی جان سے بھاری ہو جائے، تو معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے۔ جو لوگ سڑا ہوا گوشت بڑے اطمینان سے مارکیٹ میں بھیجتے ہیں، ان کے لیے آپ اور میں کوئی انسان نہیں بلکہ صرف ’’خریدار‘‘ ہیں،ایسے خریدار جن کے پیسے سے ان کا پیٹ تو بھر جائے، چاہے ہمارے جسموں میں زہر ہی کیوں نہ بھر جائے۔سڑا ہوا گوشت صرف بدبو یا ذائقے کا مسئلہ نہیں بلکہ بیکٹیریا، زہریلے کیمیائی اجزاء اور مہلک بیماریوں کا ایک پیکج ہے۔ یہ ہیضہ، ٹائیفائیڈ، آنتوں کی سوزش اور کئی مہلک امراض کا براہِ راست ذریعہ ہے اور یہ سب محض اس لیے کہ کسی کے لیے آپ کی جان سے زیادہ اہم اس کی جیب ہے۔
کیا یہ المیہ نہیں کہ ہمیں اپنی حفاظت کی فکر اس وقت آتی ہے جب 1200 کلو سڑا ہوا گوشت پکڑا جاتا ہے؟ کیا یہ کام ہمارا نہیں کہ ہم روزمرہ کی خریداری میں ہوشیار رہیں؟ مگر ہم نے تو ذمہ داری کا ٹھیکہ صرف حکومت اور محکموں کو دے دیا ہے اور خود اپنی صحت کے نگہبان بننا چھوڑ دیا ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے کہ فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کہاں تھا جب یہ گوشت کا ڈھیر شہر میں پہنچا؟ کیوں یہ محکمہ ہمیشہ کسی حادثے کے بعد جاگتا ہے؟ ایک فعال اور سخت نگرانی والا نظام نہ صرف ایسے واقعات کو روکتا ہے بلکہ لوگوں میں اعتماد بھی پیدا کرتا ہے۔ مگر افسوس! ہم زیادہ تر اسی وقت حرکت میں آتے ہیں جب نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
آج ہمارے شہروں میں باہر کھانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ریستورانوں، فاسٹ فوڈ پوائنٹس اور سڑک کنارے کھانے کے اسٹالز پر رش دیکھ کر لگتا ہے جیسے کھانا پکانے کا فن اب گھروں میں غیر ضروری ہو گیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان جگہوں کی صفائی، معیار اور کچن کے اندرونی حالات دیکھتے ہیں؟ ہم بس ذائقے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ذائقہ اگر زہر میں لپٹا ہو تو انجام کیا ہوگا۔
احتیاط کے لیے ضروری ہے کہ گوشت ہمیشہ قابلِ اعتماد اور جان پہچان والے قصائی سے خریدا جائے۔ خریدتے وقت گوشت کی خوشبو، رنگ اور ساخت کا باریک جائزہ لیا جائے۔باہر کھانے سے پہلے ریستوران کے معیار اور ساکھ کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ بچوں کو کھانے کی حفاظت کے بارے میں شعور دیا جائے تاکہ وہ خود بھی محتاط رہیں۔فوڈ سیفٹی کے اداروں کو روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ معائنہ کرنا ہوگا، نہ کہ سانحے کے بعد۔گوشت اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کے لیے باضابطہ ٹریسنگ سسٹم ہونا چاہیے تاکہ ہر خریدار جان سکے کہ یہ مال کہاں سے آیا۔عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے، — سوال کرنا، جانچنا اور ضرورت پڑنے پر شکایت درج کروانا۔
یہ سڑا ہوا گوشت تو بس ایک علامت ہے، اصل بیماری ہمارے اجتماعی رویوں میں چھپی ہے۔لالچ، غفلت اور بے حسی۔ جب معاشرہ منافع کو اصول اور اخلاق پر ترجیح دیتا ہے، تو بگاڑ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ آج گوشت ہے، کل دودھ، پانی، سبزیاں،ہر چیز مشکوک ہو سکتی ہے اگر ہم نے اپنی سوچ اور نظام کو درست نہ کیا۔
یہ باتیں محض شکایت یا خوف پیدا کرنے کے لیے نہیںبلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ ہم سب اس جرم کے کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ہماری خاموشی، ہماری غفلت اور ہماری آنکھ بند کر کے خریداری۔اگر آج ہم نے اپنے بازاروں، محکموں اور خود اپنی آنکھوں کو بیدار نہ کیا، تو کل شاید یہ 1200 کلو نہیں بلکہ ہزاروں ٹن زہر ہماری پلیٹوں میں آ جائے گا اور پھر افسوس کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا۔
آخری بات : جان لو کہ بات صرف رستہ، کباب اور گوشت کی نہیں ہے۔ یہ ایک پورے نظام کی سڑاند ہے جو ہماری پلیٹ میں زہر ڈال کر ہمیں چپ چاپ کھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہمارے بازاروں میں آج جو کچھ ’’غذا‘‘ کے نام پر بکتا ہے، اس میں غذا کم اور بیماریاں زیادہ ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں صاف ستھری پلیٹ سجانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، لیکن جو چیزیں ہم اس پلیٹ میں رکھتے ہیں، ان کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی اور کس حال میں ہم تک پہنچی، یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ گوشت ہو یا سبزیاں، دودھ ہو یا مٹھائی ،ہر چیز میں کہیں نہ کہیں ملاوٹ، کیمیکل یا غیر معیاری طریقہ کار چھپا بیٹھا ہے۔ یہ زہر آہستہ آہستہ ہمارے جسموں میں اُترتا ہے اور پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ بیماریاں کیوں بڑھ رہی ہیں، بچے کیوں کمزور ہیں، اور دل کے مریض کیوں ہر گلی محلے میں ہیں۔یہ صرف بددیانتی کرنے والے چند دکانداروں یا سپلائرز کا قصور نہیں، بلکہ ہماری بے حسی کا بھی نتیجہ ہے۔ ہم سوال نہیں کرتے، ہم تصدیق نہیں کرتے، ہم احتجاج نہیں کرتے۔ ہمیں بس کم قیمت اور خوبصورت دکھنے والی چیز چاہیے، چاہے اس کے پیچھے صحت کا جنازہ ہی کیوں نہ ہو۔
آخر کب تک ہم اس چپ سادھ کر بیٹھے رہنے والے تماشائی بنے رہیں گے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی خریداری میں شعور لائیں، معیاری اور محفوظ چیز کا مطالبہ کریں اور جو ہمیں دھوکہ دے رہا ہے، اُسے بے نقاب کریں۔ کیونکہ یہ صرف ذائقے کی جنگ نہیں ہے۔یہ ہماری زندگی اور آنے والی نسلوں کے بقا کی جنگ ہے۔
(مضمون نگار معلم اور ’رزق ریولوشن‘ کے بانی ہیں، جس کا مشن ہر گھر تک محفوظ اور خالص خوراک پہنچانا ہے)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]