سبدر شبیر ،کولگام
زہر قاتل ہے آبگینوں میں
سانپ پل رہے ہیں آستینوں میں
کشمیر، جسے جنتِ نظیر کہا جاتا ہے، صدیوں سے اپنی قدرتی خوبصورتی، صاف فضا، میٹھے پانیوں اور مہمان نواز لوگوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی شرافت، دیانت داری اور باہمی اعتماد پر فخر کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ اسی جنت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ذاتی لالچ اور چند سکوں کی خاطر اپنی ہی کمیونٹی کی صحت اور زندگی کے ساتھ کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ حالیہ دنوں میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ کچھ قصاب اور سپلائر غیر معیاری اور مضرِ صحت گوشت بیچ رہے ہیں۔ یہ گوشت کبھی بیمار جانوروں سے حاصل کیا جاتا ہے، کبھی مردہ جانوروں سے اور کبھی ذبح کے بعد اسے گھنٹوں یا دنوں تک غیر محفوظ حالات میں رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کام کرنے والے لوگ بظاہر ہمارے اپنے ہیں، ہمارے بازاروں میں بیٹھے ہیں، مسکرا کر سلام کرتے ہیں اور اعتماد کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ’’آستینوں کے سانپ‘‘ ہیں، جو موقع ملتے ہی اپنے زہر سے معاشرے کو آلودہ کر رہے ہیں۔
غیر معیاری گوشت کا مطلب صرف ذائقے کی کمی یا معیار میں کمی نہیں بلکہ یہ انسانی جان کے لیے خطرہ ہے۔ اس میں مہلک بیکٹیریا، وائرس اور زہریلے جراثیم موجود ہو سکتے ہیں جو کھانے کے بعد پیٹ کے امراض، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، فوڈ پوائزننگ اور دیگر خطرناک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بیماریاں فوراً ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ مہینوں اور برسوں میں جسم کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اس طرح کا گوشت بیچتا ہے، وہ نہ صرف ایک صارف کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ پورے خاندان اور معاشرتی نظام پر وار کر رہا ہے۔ یہ لوگ صرف کاروباری نہیں بلکہ زندگی اور موت کے کھیل میں ملوث مجرم ہیں۔
محاورہ ’’آستینوں کے سانپ‘‘ ایسے ہی کرداروں کے لیے بنا ہے۔ یہ لوگ ہمارے درمیان رہتے ہیں، ہماری زبان بولتے ہیں، ہمارا لباس پہنتے ہیں، مگر ان کے ارادے اور اعمال زہریلے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی حرکات سے نہ صرف جسمانی بیماری پھیلاتے ہیں بلکہ معاشرے کے اعتماد کو بھی زہر آلود کر دیتے ہیں۔ اعتماد ایک معاشرتی عمارت کی بنیاد ہے۔ جب بنیاد میں دراڑ آتی ہے تو پوری عمارت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اگر لوگ دکاندار پر بھروسہ نہ کر سکیں، تو بازار کا ہر لین دین شک، خوف اور بداعتمادی کی فضا میں ہوگا۔ یہ بداعتمادی آہستہ آہستہ معاشرتی رشتوں میں سرایت کر جاتی ہے اور پھر ہر شخص دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف اخلاقی یا سماجی نہیں بلکہ دینی بھی ہے۔ اسلام میں حلال اور پاکیزہ رزق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح حکم ہے کہ وہی کھاؤ جو طیب ہو، یعنی جو پاک اور صحت بخش ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ غیر معیاری گوشت بیچنا صرف دھوکہ نہیں بلکہ ایک ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ حرام یا مضرِ صحت کھانا نہ صرف جسم کو بیمار کرتا ہے بلکہ روح پر بھی اثر ڈالتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ بنتا ہے۔
حالیہ کارروائیوں میں انتظامیہ نے کئی مقامات پر چھاپے مارے، غیر معیاری گوشت ضبط کیا اور ملزمان کو گرفتار کیا۔ یہ قابلِ تعریف ہے مگر یہ محض وقتی علاج ہے۔ اس مسئلے کی جڑ کو کاٹنے کے لیے مستقل اور سخت حکمتِ عملی ضروری ہے۔ گوشت بیچنے والوں کے لیے لائسنس کا اجراء اور تجدید لازمی ہونی چاہیے۔ جانوروں کے ذبح سے پہلے ویٹرنری ڈاکٹر کی موجودگی یقینی بنائی جائے تاکہ بیمار جانور مارکیٹ میں نہ آئیں۔ ذبح خانوں اور مارکیٹوں میں حفظانِ صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ عوام کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ کس طرح گوشت کا معیار پہچان سکتے ہیں اور شکایت درج کرنے کا طریقہ بتایا جائے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت جتنا بھی زور لگائے، جب تک عوام خود بیدار نہ ہوں، یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔ ہر شہری کو چاہیے کہ خریداری کے وقت آنکھیں کھلی رکھے، گوشت کی رنگت، خوشبو اور حالت پر نظر ڈالے۔ اگر ذرا سا بھی شک ہو تو خریداری سے انکار کرے اور فوراً متعلقہ محکمے کو اطلاع دے۔ خاموشی جرم کو سہارا دیتی ہے۔ اگر ہم یہ سوچ کر چپ رہیں کہ ’’میرا کیا جاتا ہے‘‘ تو کل یہ زہر ہمارے اپنے گھر تک پہنچے گا۔
معاشرے میں ایسے کرداروں کی موجودگی ایک جیتا جاگتا المیہ ہے۔ ذرا تصور کریں ایک مزدور دن بھر کی محنت کے بعد چند سو روپے میں گوشت خرید کر اپنے بچوں کے لیے لاتا ہے۔ وہ خوش ہوتا ہے کہ بچے اچھی غذا کھائیں گے، صحت مند رہیں گے۔ مگر اس مزدور کو معلوم نہیں کہ یہ گوشت بیماری کا بیج ہے جو آہستہ آہستہ اس کے بچوں کو بیمار کرے گا۔ ایسا شخص جو یہ گوشت فروخت کرتا ہے، وہ مسکراہٹ کے ساتھ قتل کرنے والا ہے۔ یہ قتل چھپ کر، خاموشی سے اور بظاہر محبت کے لبادے میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آستینوں کے سانپ کہلانے کے مستحق ہیں۔
اس زہر کو ختم کرنے کے لیے تین بڑے اقدامات ضروری ہیں۔ پہلا، سخت قانون سازی اور اس پر عمل درآمد ـ تاکہ کوئی بھی مافیا یا شخص قانون سے بچ نہ سکے۔ دوسرا، عوامی شعور کی بیداری ـ تاکہ ہر شخص اپنی صحت اور خاندان کے تحفظ کے لیے آواز اٹھا سکے۔ تیسرا، ایمانداری اور دیانت کی واپسی ـ جو صرف مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کو اپنانے سے ممکن ہے۔ اگر ہم نے یہ تینوں اقدامات نہ کیے تو آستینوں کے سانپ مزید طاقتور ہو جائیں گے اور ایک دن یہ زہر اتنا پھیل جائے گا کہ اسے ختم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
کشمیر کی اصل خوبصورتی صرف برف پوش پہاڑوں اور نیلگوں جھیلوں میں نہیں، بلکہ اس کے صاف دل، دیانتدار اور پرخلوص لوگوں میں ہے۔ اگر ہم اپنے درمیان موجود ان زہریلے کرداروں کو پہچان کر انہیں بے نقاب کریں، تو ہم نہ صرف اپنی صحت بچا سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرتی وقار کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ایک معاشرہ اس وقت محفوظ رہتا ہے جب اس کے شہری بیدار ہوں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ظلم و دھوکے کے خلاف متحد ہو جائیں۔ آستینوں کے سانپ صرف اسی وقت ختم ہوں گے جب ہم سب مل کر ان کے خلاف کھڑے ہوں اور ان کا زہر پھیلنے سے پہلے ہی ان کا خاتمہ کر دیں۔
[email protected]
������������������