آج کل اخبارات اورسوشل میڈیا کے ذریعے جس نوعیت کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں،وہ نہ صرف تعجب خیز ،تشویش ناک اور لرزہ خیز ہوتی ہیں بلکہ انسانیت کو شرم سار کرنے والی ہوتی ہیں۔حال ہی میں سڑے ہوئے گوشت اور دوسری بہت ساری بوسیدہ اور مضر صحت اشیاء سے تیار کی جانے والی کھانے پینے کے اجناس کی بڑے پیمانے پر خریدو فروخت پر شدید بحث و مباحثہ ہورہی ہے۔ بعض لوگ ان واقعات کو معاشرتی زوال کی علامت قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض لوگ اسے یہاں کی حکومت اور انتظامی اداروں کی غیر منصفانہ پالیسیوں،مصلحتوں اور ناقص کارکردگیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔کئی قلمکار ، تجزیہ نگار اور کچھ عوامی حلقےایسے حساس موضوع پراپنی رائے کا اظہار کرتے وقت نہایت سنجیدگی، ذمّہ داری اور فکری پختگی کا مظاہرہ کررہے ہیں تاکہ معاشرتی بگاڑ کی صحیح تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کے مؤثر تدارک کے پہلو بھی اُجاگر ہو سکیں۔اب یہ سوال محض تاریخ کی کتابوں میں درج کسی فلسفیانہ بحث کا عنوان نہیں بلکہ ہمارے عہد کی زندہ حقیقت بن چکا ہےکہ جب کسی معاشرے میں حق و ناحق ،حرام و حلال ،سچ و جھوٹ،دیانت داری و بے ایمانی ،ناانصافی ،رشوت خوری ،حد سے زیاہ منفعت پرستی اور غبن و گھپلوں کی بھرمار ہوجاتی ہے تو نہ صرف اُس معاشرے کی پیشانیاںفکر ِ روز گار میں شکن آلودہ ہوجاتی ہیں بلکہ چہروں سے زندگی کا نوربھی رخصت ہوجاتا ہے،جس سے معاشرے کے افراد کی معیشت ہی نہیں بلکہ روح و ضمیر بھی زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔ آج کے دور میں روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی انسانی ضروریات نایاب ہو چکی ہیں۔ ایک عام انسان دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے، کبھی اسپتال کے دروازے پر دم توڑ دیتا ہے تو کبھی اسکول کی فیس نہ دے سکنے کے سبب علم کے در سے محروم رہ جاتا ہے۔ بازاروں میں ہر شے ملتی ہے مگر عزّتِ نفس اور وقار شاید کہیں بھی دستیاب نہیں۔یہی وہ نشانیاں ہیں جو کسی معاشرے کے اجتماعی انحطاط کی گواہی دیتی ہیں۔معاشرے میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو طاقت و سرمائے کی سنگھاسن پر براجمان ہے۔ ان کے لیے اقدار کی حرمت محض لفظوں کی بازی گری بن چکی ہے اور انسانی وقار کا مفہوم ان کے لیے اجنبی ہو گیا ہے۔ ان کی محفلیں، ان کے ایوان، ان کے عشرت کدے سب اس بات کے شاہد ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے جب اپنی ذمّے داریوں سے منہ موڑ لیں تو معاشرہ کی کشتی ایسے ڈگما جاتی ہے جو معاشرے کے بوسیدہ اور کھوکھلے خدوخال کو بے نقاب کرتی جاتی ہے۔ ایک طرف کے لوگ نانِ شبینہ کو ترستے ہیں اور دوسری طرف کے دستر خوانوں پر ضیافتیں سجی رہتی ہیں۔جس سے ثابت ہوتا ہےکہ ہمارا زوال محض معیشت کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا بھی ہے۔نہ احساس کا زیاں باقی رہاہے اور نہ ہی تبدیلی کی تڑپ۔آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں، وہاں سوال محض کسی فرد یا کسی طبقے کی لغزش کا نہیں رہا بلکہ پورے نظامِ فکر و نظر کی خرابی کا ہو چکا ہے۔بے شک معاشروں میں اخلاقی زوال کسی زلزلے یا آندھی کی طرح اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک طویل، خاموش اور مہلک عمل ہوتا ہے۔ پہلے روح سے حیاء کا پردہ آہستہ آہستہ اترتا جاتا ہے، پھر ضمیر کی آنکھوں پر غفلت کی دبیز چادر پڑتی ہے، اس کے بعد حیاء کے آخری چراغ بھی بجھ جاتے ہیں۔ دل و دماغ کی سر زمین بنجر ہو جاتی ہے، اقدار کا دریا خشک ہو جاتا ہے اور تہذیب کی فضاء میں گہرا سناٹا چھا جاتا ہے۔ایسے میں انسانوں کی شکلیں تو باقی رہتی ہیں، مگر ان کے اندر سے انسانیت رخصت ہو چکی ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر صرف اپنے مطلب کی دنیا بساتا ہے اور اجتماعی شعور خوابِ غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔یہی سب کچھ آج ہمارے معاشرے میں نظر آرہا ہے۔الغرض اگر ہم نے آج اپنے اخلاقی وجود کو نہ سنوارا، اگر ہم نے اجتماعی ضمیر کو جگانے کی کوشش نہ کی تو کل ہماری صورت حال اس سے بھی بَدتر ہوجائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں، ورنہ کل ہم صرف مثال بن کر رہ جائیں گے اور وہ بھی عبرت کی مثال۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صرف واقعات پر افسوس یا تنقید تک محدود نہ رہیں بلکہ اصلاحِ نفس، اصلاحِ خاندان اور اصلاحِ معاشرہ کی سنجیدہ کوشش کریں۔