بلال فرقانی
سرینگر//کشمیر میں ہوٹلوں، ڈھابوں اور سٹریٹ فوڈ سٹالوں و ریڑوں پر استعمال ہونے والے کھانے کے تیل کا معیار سنگین خدشات پیدا کر رہا ہے۔سرینگر سمیت وادی کے جنوب و شمال کے بازاروں میں ریڑیوں و چائے دکانوں پر تلی ہوئی چیزوں میں استعمال ہونے والے تیل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص تیل کا استعمال ایک خاموش قاتل ہے، کیونکہ اس کے نقصانات فوری ظاہر نہیں ہوتے، مگر طویل عرصے تک ان کااستعمال سنگین بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ کھانے پکانے کے تیل کو بار بار استعمال اور دوبارہ گرم کرنے سے ٹوٹل پولر کمپاونڈ پیدا ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور تیل کو ناقابلِ استعمال بنا دیتا ہے۔ وادی کے معروف معالج ڈاکٹر نذیر مشتاق کا ماننا ہے کہ بار بار تیل کو گرم کرکے استعمال کرنے کا عمل معدے،انتڑیوں،گلے اور جگر کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ گھروں کے باہر تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کہا کہ ا س عمل سے تیل کی غذائی اور کیمیائی خصوصیات بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔انکاکہناتھا کہ بار بار گرم کیا گیا تیل زہریلے ٹاکسنز خارج کرتا ہے، ٹرانس فیٹس کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے، تیل کو بدبودار اور باسی بناتا ہے، فری ریڈیکلز پیدا کرتا ہے اور خطرناک کیمیائی ردعمل کا باعث بنتا ہے۔حکومت نے کوکنگ آئل میں ٹی پی سیکی زیادہ سے زیادہ حد 25فیصد مقرر کر دی ہے اور یکم جولائی 2019 سے ملک بھر کے تمام فوڈ بزنس آپریٹوںکو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تیل سیاہ کا معیار سختی سے جانچیں تاہم اس پر خال خال ہی عمل ہوتا ہے جس پر لوگ متفکر ہیں۔ بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ دکاندار اور ریڑی والے بار بار اسی تیل کو استعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے یہ تیل زہر سے کم نہیں ہوتا،تاہم عوامی شکایت کو برحق سمجھا جاسکتا ہے کہ ان دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کے خلاف ہونے والی کاروئیاں نا ہونے کے برابر ہے۔ اہم بازاروں سے لیکر سیاحتی مقامات اور زیارت گاہوں کے باہر یہ تلی ہوئی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں،جبکہ اس کے علاوہ فینی اور دالیں بھی کھلے عام سڑک کناروں پر لگے ریڑیوں پر فروخت کی جاتی ہے۔ اس کاروبار میں مقامی لوگوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد بیرون ریاستوں سے آئے ہوئے خوانچہ فروشوں کی بھی ہیں۔پائین شہر کے اعجاز احمد نے بتایاہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ فرائنگ کیلئے وہی تیل بار بار گرم کیا جاتا ہے، جس سے کھانے کا ذائقہ اور صحت دونوں خراب ہو جاتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ متعدد ہوٹلوں، ریستورانوں اور سڑک کنارے کھانوں کے سٹالوں پر ناقص اور بار بار استعمال شدہ تیل کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ بڈگام کے ایک بزرگ شہری غلام رسول نے کہا، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فرائنگ کے لیے کالا پڑ چکا تیل دوبارہ برتن میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے۔ یہ تیل بدبو دیتا ہے اور صحت کے لیے زہر ہے۔ سرینگر کی ایک خاتو رقیہ بیگم نے شکوہ کیا، ہمارے بچے سکول جاتے وقت سڑک کنارے سموسے اور پکوڑے کھا لیتے ہیں، لیکن یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ وہی تیل کئی دنوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ ان ہی بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کے بعد فوڈ سیفٹی محکمے نے ریوزڈ آئل پر مکمل پابندی، سڑک کنارے کھانوں کے اسٹالز کی روزانہ جانچ، ہانڈی بانکی اور اجزا کی شفاف پروسیسنگ، عوامی آگاہی مہم، اور حلال سرٹیفیکیشن کے عمل میں شفافیت جیسے اقدامات کی سفارشات جاری کی ہیں، جن پر سختی سے عمل درآمد کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ فوڈ اینڈ ڈرگس آرگنائزیشن کے اسسٹنٹ کنٹرولر ہلال احمد میر نے کہا ہوٹلوں،ڈھابوں کا متواتر طور پر معائنہ کیا جاتا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارے کی گاڑیاں متواتر طور پر ان خوانچہ فروشوں،ڈھابوں اور ہوٹلوں میں جاتی ہے اور ان سے استعمال شدہ تیل فی لیٹر32 کے حساب سے لیا جاتا ہے اور اس تیل کو تار کول میں استعمال کیا جاتا ہے۔ہلال احمد نے کہا کہ جو دکاندار یہ ناقص تیل از خود فراہم نہیں کرتے ان سے یہ ضبط کیا جاتا ہے۔فوڈ اینڈ ڈرگ آرگنائزیشن ذرائع نے بتایا کہ ماہ مئی میں شکایات پر390اور نگرانی کے دوران676نمونے اٹھائے گئے جبکہ موبائل فیسلٹی ٹیسٹنگ وہیکلز کے ذریعے1471ٹیسٹ کئے گئے جن میں15مضر صحت اور45غیر معیاری پائے گئے اور تحت دفعہ46شق4کے تحت انہیں نوٹسیں جاری کی گئیں۔انکا کہنا تھا کہ اس وقفے میں ادارے کو55شکایتیں موصول ہوئیں جن کا ازالہ کیا گیا۔