بلال فرقانی
سرینگر// کشمیر میںسیب کی صنعت ، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اس وقت قیمتوں میں شدید کمی اور بازاروں کے بڑھتے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ حالانکہ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے ساتھ مل کر بھارت میں پیدا ہونے والے 90فیصد سیب کشمیر سے آتے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں 1,72,000 ہیکٹر رقبے پر سیب کے باغات ہیں، جہاں سے سالانہ تقریباً 20.6 لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ بارہمولہ میں4.94 لاکھ ٹن، شوپیاںمیں2.64 لاکھ ٹن اور اننت ناگ میں2.62 لاکھ ٹن مجموعی پیداوار کا تقریباً نصف فراہم کرتے ہیں۔فی ہیکٹر اوسط پیداوار 2017-18میں 11.1 ٹن سے بڑھ کر 2023-24میں 12.0 ٹن ہو چکی ہے جبکہ سب سے زیادہ پیداوار 2022-23میں ریکارڈ کی گئی۔اس کے باوجود کاشتکار قیمتوں کے بحران سے دوچار ہیں۔ صرف 2برسوں میں فی ڈبہ اوسط تھوک قیمت 733 روپے سے گر کر 458 روپے ہو گئی ہے یعنی 37 فیصد کمی درج کی گئی۔ اس کی بڑی وجہ 2023 میں تقریباً 4.7 لاکھ ٹن سیب کی درآمد ہے، جو ستمبر تا دسمبر کشمیر میں عروج پر مارکیٹ میں آتی ہے اور قیمتوں کو گرا دیتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کی کنٹرولڈ اسٹوریج کی صلاحیت صرف 2,70,374 ٹن ہے جو کل پیداوار کا محض 13 فیصد بنتی ہے اسلئے بیشتر فصل کوچڑائی کے فوراً بعد فروخت کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر فروخت کو کم پیداوار والے مہینوں تک پھیلایا جائے تو قیمتوں میں 20 سے 40 فیصد اضافہ ممکن ہے۔باغبانی ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر سیب کی سالانہ پیداوار تقریباً 8.4 کروڑ ٹن ہے، جس میں نصف سے زیادہ چین میں پیدا ہوتا ہے۔ یورپ میں موسمی اثرات عارضی مواقع پیدا کرتے ہیں لیکن چونکہ بھارت کی سیب برآمدات محض 22 ہزار ٹن ہیں، اسلئے اندرونِ ملک درآمدات سے مقابلہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ماہرین نے اگلے 5برسوں میں کولڈ اسٹوریج کی صلاحیت کو دوگنا کرنے، بالخصوص بارہمولہ، بڈگام اور اننت ناگ میں، اور باغات کے قریب گریڈنگ، ٹریس ایبلٹی اور پروسیسنگ یونٹوں کے قیام پر زور دیا ہے۔ایک باغبانی ماہر کے مطابق ’’کشمیر کے پاس پیمانہ، معیار اور وراثت موجود ہے، کمی صرف مارکیٹ کے وقت کو سمجھنے کی ہے اور اس کا حل کولڈ اسٹوریج میں ہے۔ اگر حکمت عملی کے تحت اسٹوریج میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو قیمتوں کا بحران با غبانوں کی آمدنی کو مسلسل متاثر کرتا رہے گا‘‘۔کشمیرویلی فروٹ گرورس و ڈیلرس یونین کے صدر بشیر احمد بشیر نے بتایا کہ امسال قیمتوں میں کمی کے معاملے نے باغبانوں کو پریشانیوں میں مبتلا کیا ہے۔ انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ موسم کی مار سے باغبان پہلے ہی پریشان تھے اور مرکزی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ غیر ملکی سیبوں کے درآمدات سے کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ مرکز نے اگرچہ برطانیہ سے سیب برآمد نہ کرنے کا فیصلہ لیا ہے تاہم امریکہ اور چین کو بھی اس زمرے میں ڈالنا ضروری ہے۔