حسین محتشم
پونچھ//سنئی میں انجمن حیدریہ انعام والا سنئی کے زیرِ اہتمام ایک نہایت بابرکت اور روح پرور مجلسِ عزائے امام حسین علیہ السلام منعقد کی گئی۔ یہ مجلس دو نشستوں پر مشتمل رہی اور اپنے اندر علم، شعور، ایمان اور جذب عشقِ اہل بیت کا حسین امتزاج لئے ہوئے تھی۔اس بابرکت اجتماع میں ضلع بھر سے کثیر تعداد میں عزادارانِ امام حسین نے شرکت کی۔ مرد، بزرگ، جوان اور بچے سبھی کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل کربلا کے شہیدوں کی یاد میں دھڑک رہا تھا۔ یہ منظر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وقت اور حالات کیسے بھی ہوں، عشقِ حسین آج بھی دلوں کو گرما رہا ہے اور اہل ایمان کے ضمیر کو بیدار کر رہا ہے۔پہلی نشست سے خطاب کی سعادت مولانا ڈاکٹر قاری کرار علی جعفری نے حاصل کی۔ انہوں نے نہایت پْراثر اور مدلل انداز میں فلسف شہادتِ امام حسین بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کے لئے ایک دائمی پیغام ہے۔ امام حسینؑ نے یزید کے سامنے جھکنے کے بجائے باطل کو للکارا اور حق کی حفاظت کے لئے اپنے گھرانے اور جانثار ساتھیوں کی قربانی پیش کی۔ مولانا نے اس بات پر زور دیا کہ عزاداری کا مقصد صرف گریہ و زاری نہیں بلکہ امام حسین کے مشن کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کرنا ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں دین کے اصولوں سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، اگر ہمارے دلوں میں امام حسین کا عشق اور حق کی پہچان موجود ہو۔دوسری نشست میں مولانا سید مظہر حسین جعفری نے خطاب کیا۔ ان کا اندازِ بیان ہمیشہ کی طرح ولولہ انگیز اور حقائق سے بھرپور تھا۔ انہوں نے کربلا کے حالات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح امام حسین نے مشکل ترین حالات میں بھی صبر، شجاعت اور تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں ظلم و جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے بڑی طاقت حق کی پہچان اور قربانی کا جذبہ ہے، جو ہمیں کربلا سے ملتا ہے۔مولانا نے کہا کہ عزاداری صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ ایک تحریکی عمل ہے، جو ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر ہم امام حسین کی قربانی کو سمجھ لیں تو معاشرتی بگاڑ، کرپشن، ناانصافی اور ظلم خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح امام حسین نے کم تعداد کے باوجود یزید جیسے جابر کو چیلنج کیا، ہمیں بھی آج کے باطل نظاموں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہوگا۔مجلس کے دوران نوحے، سلام اور مرثیے پڑھنے والوں نے دلوں کو جھنجھوڑ دیا۔ مجلس کے اختتام پر دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کو وحدت، ایمان اور حوصلہ عطا فرمائے، اور ہمیں امام حسین کے مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔