فاضل شفیع بٹ
انیس کو گاؤں کے پر سکون ماحول میں کام کرنا بے حد پسند تھا۔ قسمت نے انیس کی انگلی پکڑی اور اس نے محکمہ دیہی ترقی میں سرکاری ملازم کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ یہ اس کے سجے سجائے خوابوں کی تعبیر تھی۔ انیس نے پسماندہ گاؤں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ٹھان لی اور نہایت ایمانداری سے اپنے فرائض کو انجام دیتا رہا۔ وہ پسماندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرکار کی جانب سے آئے دن نئی نئی اسکیموں کے بارے میں ان کو مطلع کرتا رہتا گویا وہ دل سے دیہی ترقی کے لئے کوشاں تھا۔
اس بار سرکار نے بے گھر لوگوں کے لیے ایک نئی اسکیم کو بروئے کار لایا۔ سرکار کی جانب سے بے گھر لوگوں کو کچھ رقم امداد کے طور پر فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے لئے ایک چھوٹا سا گھر تعمیر کر سکیں۔۔ انیس کے لئے لوگوں کی خدمت کرنے کا ایک سنہری موقع تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا کام سروے کا تھا۔
انیس کو ایک پچھڑے گاؤں کے سروے کا کام سونپا گیا ۔اس نے گاؤں میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے جوں ہی قدم رکھا تو بہت سے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو ئے جن میں گاؤں کا سابق سرپنچ، اوقاف کمیٹی کا صدر، مساجد کے امام وغیرہ شامل تھے اور اسے گاؤں کی پسماندگی کے بارے میں ایک لمبا چوڑا لیکچر سننا پڑا ۔انیس کو یہ مشورہ دیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا بےگھر افراد کی لسٹ میں اندراج کیا جائے اور اس نے بھی دم سادھے ہامی بھر لی۔
شفیق شاہ گاؤں کا سابق سرپنچ تھا ۔چھوٹا قد، لمبی ناک، چھریرے جسم کا مالک، ایک عجیب و غریب قسم کا آدمی۔ شفیق شاہ نے انیس کو چائے کے لئے مدعو کیا ۔ وہ گوجر بستی کا باشندہ تھا اور واقعی اس بستی میں بہت سے لوگ ابھی بھی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں سکونت پذیر تھے۔یہ لوگ واقعی غریبی اور مفلسی کے مارے ہوئے تھے ۔آج کے دور میں بھی ان کے پاس رہنے کے لئے گھر نہ تھے۔ انیس کے دل کو کافی گراں گزرا۔وہ شفیق شاہ کے گھر چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ شفیق شاہ اس سے مخاطب ہوا :
“سر ۔۔۔۔یہ غریبوں کی بستی ہے۔میں یہاں کا سرپنچ رہ چکا ہوں اس لئے آپ سے استدعاء ہے کہ سروے کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ باقی چائے پانی کی ذمہ داری میری”
چائے پانی کے الفاظ سن کر انیس ششدر رہ گیا۔ اس نے شفیق شاہ سے کہا :
“شفیق۔۔۔۔ یہ چائے پانی کیا ہے ؟”
“ارے جناب ۔۔آپ تو سرکاری افسر ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔آپ جس کا بھی نام لسٹ میں درج کریں گے، فی نام آپ کو اپنے حصے کی رقم ملے گی ۔۔آپ کو بس نام درج کرنا ہے ۔۔باقی مجھ پر چھوڑ دو ۔۔آپ ہی ہمارے حاکم ہیں ” شفیق شاہ مسکراتے ہوئے انیس سے مخاطب تھا ۔
یہ الفاظ سنتے ہی انیس پر گویا سکتہ طاری ہوا۔ اس کے ہونٹ سوکھ گئے۔ اس نے شفیق خان کو بری طرح ٹوکا اور صاف صاف لفظوں میں کہا :
“دیکھو شفیق ۔۔میں غریبوں کے حق پر شب خون نہیں مارنا چاہتا ۔مجھے معلوم ہے مجھے کیا کرنا ہے ۔میرے کام میں دخل اندازی دینا بند کریں ۔مجھے اپنا کام کرنے دیں اور چائے پانی والے مضحکہ خیز الفاظ اپنے پاس ہی رکھیں ”
انیس نے تن تنہا سارے گاؤں کے سروے کا کام دو ماہ میں ختم کیا ۔تقریباً پانچ سو چولہوں پر مشتمل گاؤں میں محض ساٹھ گھرانے اس سرکاری اسکیم کے مستحق پائے اور ان کا نام درج کر کے اپنی ڈیوٹی کو انجام دیا ۔
سرکار بھی کافی ہوشیار ہوتی ہے ۔بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسران کو پہلے سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ سروے کے لیے تعینات بہت سے ملازمین نے بے ایمانی کا راستہ اپنا لیا ہوگا ۔اس لئے سرکار نے بھی سروے کی تصدیق کے لئے الگ سے ایک ٹیم کو مقرر کیا ۔انیس بھی اس ٹیم کا رکن تھا ۔ان کا کام بےگھر افراد کی پھر سے ایک بار جانچ کر کے اس بات کی تصدیق کرنی تھی کہ سروے کس حد تک درست ہوئی ہے اور کتنے لوگ واقعی اس اسکیم کے مستحق ہیں۔ سروے کے لئے انیس کو بھی ایک گاؤں سونپ دیا گیا ۔
گاؤں میں قدم رکھتے ہی انیس کو اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ گاؤں کسی حد تک ترقی یافتہ ہے۔گاؤں واقعی خوبصورت تھا ۔گاؤں کی زمین سے پھوٹتے ننھے ننھے پانی کے چشمے یہاں کی خوبصورتی میں اضافہ تھا ۔گاؤں تقریباً چار سو کے قریب چولہوں پر مشتمل تھا اور بڑی عجیب بات یہ تھی کہ سروے کے مطابق بےگھر افراد کی تعداد آٹھ سو سے زائد تھی۔جیسے ہی انیس نے اپنی ڈیوٹی کی شروعات کی تو گاؤں کا سابق سرپنچ حسن علی خان اس کے سامنے نمودار ہوا اور بلند آواز میں انیس سے مخاطب ہو کر بولا :
“صاحب ۔۔آپ کی من مانی نہیں چلے گی ۔میں اس گاؤں کا سرپنچ رہ چکا ہوں ۔میں نے ہی بےگھر افراد کی سروے کرائی ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ اس اسکیم کا اصل حق دار کون ہے اور آپ ہیں کہ مجھ سے بنا بتائے ہی سروے کے تصدیق کا کام شروع کیا۔۔۔آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا اور جو میں کہوں گا وہی کرنا ہوگا ۔۔۔۔ سمجھے”
حسن علی خان کا جواب سن کر انیس کے اوسان خطا ہوئے۔ اس نے اپنے غصے پر قابو پا کر حسن علی سے مخاطب ہو کر کہا :
“حسن صاحب ۔۔۔۔آپ دخل اندازی کرنا بند کریں۔مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ سولہ سو کی آبادی پر مشتمل اس گاؤں میں آپ نے آٹھ سو افراد کو بے گھر قرار دیا ہے ؟۔۔۔۔گاؤں کی حالت دیکھ کر تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا ۔۔۔کیا آپ غریبوں کا حق مارنا چاہتے ہیں ؟ میں تو بس مستحق لوگوں کو اس اسکیم کے تحت رجسٹر کروں گا ۔باقی آپ کو جو کرنا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ”
حسن علی اور کچھ بولنے والا ہی تھا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی انیس کے سامنے نمودار ہوا۔اس کی حالت غیر تھی ۔غریبی اور مفلسی نے اس کے چہرے پر جھریوں کا جال بچھا دیا تھا ۔وہ نہایت عاجزی کے ساتھ انیس سے مخاطب ہوا :
“جناب ۔۔۔میں پچھلے پانچ سال سے بے گھر ہوں ۔بنا چھت والے کچے کمرے میں رہتا ہوں ۔۔صاحب بارش کے نام سے ہی ڈر لگتا ہے کیونکہ جب جب بارش ہوتی ہے۔۔۔۔ میں بے گھر ہو جاتا ہوں ۔حسن علی نے دو سال قبل مجھ سے آٹھ ہزار کی رقم لی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ مجھے بھی گھر ملے گا ۔لیکن ابھی تک منتظر ہوں ۔۔صاحب ۔۔۔۔آپ رحم کیجئے ۔۔میری حالت پر ۔۔۔میرے اہل خانہ پر ۔۔۔۔”
اس کے الفاظ سن کر انیس کے دل کو کافی گراں گزرا۔ واقعی بہت غریب آدمی تھا۔ معلوم نہیں اس آدمی کو ابھی تک گھر کیوں نہیں ملا تھا ۔اس کی آنکھوں میں آنسو کے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہوئے ۔انیس ایک دم آپے سے باہر ہوا ۔اس نے گرجتے ہوئے حسن علی خان سے کہا :
“حسن علی ۔۔۔اس بات کی تو تصدیق ہو ہی گئی کہ آپ کتنے پانی میں ہو ۔آپ نے صرف غریبوں کا حق مارا ہے ۔غریبوں کے خون سے آپ کا دامن داغدار ہو چکا ہے ۔میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤ۔ اسی میں آپ کی بھلائی ہے ”
یہ الفاظ سنتے ہی حسن علی خان دم دبا کر بھاگ نکلا ۔انیس نے اس آدمی سے وعدئہ کیا کہ اس سال کے آخر تک ضرور وہ اپنے نئے گھر میں قدم رکھے گا ۔اس آدمی نے انیس کو مزید بتایا کہ حسن علی خان نے سروے کے دوران سب لوگوں سے پیسے لئے ہیں اور ایک اچھی خاصی رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔
انیس نے گاؤں کا باریکی سے معائنہ کیا ۔نہایت قلیل لوگوں کی تعداد ایسی تھی جو واقعی اس اسکیم کے مستحق تھے ۔اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والے لوگوں نے بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کا نام بے گھر افراد کی لسٹ میں درج کروایا ہے اور جب انیس نے اس کی وجہ دریافت کی تو سب کا جواب یہی تھا کہ پیسے سرکار فراہم کر رہی ہے ۔ابھی تک ہم نے سرکار سے کچھ بھی نہیں لیا ہے ۔اب اگر مکان بنانے کی تھوڑی بہت رقم مل جائے تو حرج ہی کیا ہے ؟انیس نے ان کو سمجھانے لاکھ کوشش کی کہ ان پیسوں پر بے گھر لوگوں کا حق ہے جو واقعی غریبی اور مفلسی کی بے رنگ سی زندگیاں جی رہے ہیں لیکن اس کی ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی ۔اب وہ لسٹ سے ایسے افراد کے نام حذف کرتا گیا ۔
گاؤں کے بیشتر لوگ انیس کے ساتھ ساتھ تھے ۔ہر کوئی اپنی غریبی اور مفلسی کی روداد اسےسنا رہا تھا ۔کسی کا بیٹا بیمار تھا ،کسی کا مزدور تھا ،کسی کا جسمانی معذور تھا گویا ہر کوئی اپنے آپ کو اس امداد کا مستحق سمجھ رہا تھا ۔جیسے ہی انیس ایک گھر کے صحن میں داخل ہوا تو اس کا سر چکرا گیا ۔۔گھر ایک عالیشان بنگلے کی مانند تھا۔گھر سے ایک عمر رسیدہ بزرگ نمودار ہوئے ۔انیس نے کہا :
“چچا ۔۔۔یہ آپ کا ہی مکان ہے نا ۔۔۔اتنا عالیشان گھر ہونے کے باوجود آپ کے بیٹے کا نام لسٹ میں ہے۔۔یہ تو نا انصافی ہے ”
“ارے جناب ۔۔۔یہ گھر صرف میرا ہے ۔میں نے اپنے بیٹے کو گھر سے بے دخل کیا ہے ۔نالائق کچی جھوپنڑی میں رہتا ہے۔۔اگر آپ کو یقین نہ ہو تو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں “عمر رسیدہ بزرگ نے سادگی سے جواب دیا ۔
انیس نے دیکھا کہ وسیع آنگن کے کونے میں ایک کچی اینٹوں کا کمرہ تھا ۔انیس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ چند برتن نہایت سلیقے سے رکھے گئے تھے ۔ اندر شاید ان کی بہو تھی ۔معلوم نہیں اسے انیس کو دیکھتے ہی کیوں ہنسی آگئی ۔انیس سارا ماجرا سمجھ گیا اور اس نے ان کا نام بھی لسٹ سے حذف کر دیا ۔
اگلی باری حسن علی خان کی تھی ۔اس کے پاس دو اچھے خاصے مکان تھے ۔انیس کو دیکھتے ہی وہ موم کی طرح پگھل گیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا :
“صاحب ۔۔یہ میرے اپنے مکان نہیں ہیں ۔میں یہاں کرائے پہ رہتا ہوں ۔میں اپنے کئے پر پچھتا رہا ہوں میں آپ سے بڑی بدتمیزی سے پیش آیا ۔۔مجھے معاف کریں”
انیس نے حسن علی خان کو نظر انداز کیا اور اپنا کام جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھا ۔
تین دن میں سارا سروے ختم ہوا ۔آٹھ سو لوگوں میں محض بیس اہل خانہ واقعی بے گھر تھے۔یہ انیس کی سمجھ سے پرے تھا کہ محض کچھ رقم کے لئے لوگ اپنے دین و ایمان کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں اور کس طرح معمولی سی رقم رشوت کے عوض پیش کر کے غریبوں کا حق مارتے ہیں ۔
دو ماہ بعد نئی لسٹ جاری کی گئی ۔جہاں انیس نے سروے کی تصدیق کا کام انجام دیا تھا وہاں صرف بیس افراد کا نام لسٹ میں تھا ،جو واقعی بے گھر تھے ۔معلوم نہیں کیوں انیس کی آنکھیں بھیگ گئیں اور کافی مدت کے بعد اس نے ایک راحت کی سانس لی ۔انیس اسی لسٹ کا جائزہ لینے میں محو تھا کہ اس کےفون پر حکم نامہ ارسال ہوا ۔حکم نامہ تبادلے کا تھا اور انیس کا تبادلہ اسکے گاؤں سے بہت دور کیا گیا تھا ۔۔۔بہت دور ۔۔۔جہاں شاید ابھی بھی بے شمار لوگ بے گھر تھے۔
���
اکنگام، انت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛9419041002