میری بات
احمد وکیل علیمی
زندگی جس طرح ایک بار ہی ملتی ہے ، اسی طرح زندگی میں ماں ، باپ ایک بار ہی میسّر ہوتے ہیں۔اب یہ ہم پر منحصر کرتا ہے کہ ہم اپنے والدین کو رام کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنائیں یا ناکام ۔ کامیاب ہونا اُس کو نہیں کہتے ہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوجائیں اور اعلیٰ مرتبے پر پہنچ جائیں یابہت با صلاحیت ہو جائیں ،بلکہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ، حج اور صدقہ بھی ادا کرتے رہیں اور ہمارے والدین ہم سے ناخوش ہو کر دنیا سے رخصت ہوجائیں تو دنیا اور آخرت کی ہماری تمام سرفرازیاں اور اور شہرتیں اللہ کے حساب و کتاب میں نہ ہی معاون بن سکتی ہیں اور نہ ہی ہمیںسرخرو نہیں کرسکتی ہیں۔اللہ اور رسول اللہؐ کے بعد ہمیں اپنے ِوالدین کے تعلق سے فرمانبرداری کا مکمل ثبوت دینا ہے۔دارالآخرت کی کامیابی کے لیے ہمیں اللہ ،اُس کے رسولؐ اور والدین کی اطاعت اور ان کی خوشنودی لازمی ہے۔بالخصوص ایّام ِ ضعیفی میں والدین کو اولاد کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ قدیم دور میں بیٹا والدین کا سب سے خاص اور قیمتی اثاثہ اور مضبوط سہارا ہوتا تھا۔ بوڑھاپے کی لاٹھی بھی فرمانبردار بیٹے سے منسوب ہو ا کرتی تھی۔اقدار میں تبدیلی نے ایسے تمام نیک اعمال اور خدمات کو نگل لیا ہے۔اب یہ خیال و یقین موہوم ہوتے جارہے ہیں کہ بیٹا بوڑھاپے میں سہارا بن جائے گا۔کون نہیں جانتا کہ والدین کو اولاد کی تربیّت اور پرورش میں کس قدر تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عبرت آمیز تحریر میری نظر سے گزری ہے۔وقت ہو تو آپ بھی پڑھیے۔
’’ میرے ابوّ بوڑھے ہوچکے تھے۔ چلتے ہوئے اکثر دیوار کا سہارا لیتے۔ آہستہ آہستہ اُن کی اُنگلیوں کے نشان دیواروں پر نمایاں ہونے کے سبب دیوار کسی حد تک میلی نظر آرہی تھی، لیکن وہ نشان ابوّ کی کمزوری اور محتاجی کا پتہ دیتے تھے۔میری بیوی ان نشانات سے اُلجھن محسوس کرتی تھی۔ وہ اکثر شکایت کرتی کہ دیواریں گندی ہورہی ہیں۔ایک دن ابوّ کے سر میں شدید درد تھا،انہوں نے تیل لگایا اور حسب ِ عادت دیوار کا سہارا لیا، جس سے دیوار پر تیل کے دھبّے پڑ گئے۔ اس بار بیوی نے ناراضگی ظاہر کی اور ابّا سے سخت لہجے میں کہا، ’’ دیوار کو ہاتھ نہ لگایا کریں !‘‘ابوّ خاموش ہوگئے ۔ اُن کی آنکھوں میں گہرا دُکھ تھا۔میری گزشتہ رات ہی بیوی سے تلخ کلامی ہوئی تھی، اس لیے مصلحتاً میں خاموش ہی رہا ۔ یعنی مجھے بیوی کی اس بدتمیزی پر شرمندگی تو ہوئی مگر کچھ کہہ نہ سکا۔اُس دن کے بعد ابو نے دیوار کا سہارا لینا چھوڑ دیا ۔ ایک دن وہ توازن کھو بیٹھے اور گِر پڑے۔ ان کی کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی،آپریشن ہوا مگر وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہوسکے اور کچھ ہی دنوں میں ہم سب کو روتا چھوڑ کےچلے گئے۔ میرے دل میں شدید پچھتاوا ہوا، ابّو کی خاموش نظریں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔ نہ انہیں بھُلا سکا نہ خود کو معاف کر پایا ۔ کچھ عرصے بعد ہم نے گھر کو رنگ کرانے کا فیصلہ کیا ۔ جب رنگ کرنے والے آئے تو میرا بیٹا ، جو اپنے دادا سے بے حد محبّت کرتا تھا ۔ ان دیواروں پر رنگ کروانے سے رُک گیا جن پر داد کی انگلیوںکے نشان تھے۔رنگ کرنے والے سمجھ دار لوگ تھے، انہوں نے ان نشانات کے گرد خوبصورت دائرے بنادئیے، جیسے دیوار پر کوئی خوبصورت فن پارہ ہو۔آہستہ آہستہ وہ نشان ہمارے گھر کی پہچان بن گئے۔جو بھی آتا، اس دیوار کی تعریف ضرور کرتا ، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس سجاوٹ کے پیچھے ایک دل خراش سچاّئی چھُپی ہے۔وقت گزرتا گیا ۔ اب میں خود بھی بوڑھا ہو چکا ہوں ۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے بھی دیوار کا سہارا لینا پڑا ۔ اسی لمحے مجھے اپنا ماضی یاد آیا ۔میری بیوی کا ابّو کو جھڑکنا ، اُن کی خاموشی اور ان کادرد۔ میں نے سہارا لیے بغیر چلنے کی کوشش کی ۔ میرا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ فوراً آگے بڑھا اور بولا ، ’’ پاپا ! دیوار کا سہارا لیجیے ، ورنہ آپ گرِ جائیں گے۔‘‘ پھر میری پوتی دوڑتی ہوئی آئی اور بولی ،’’ دادو ُ ، آپ میرا کندھا پکڑ لیں۔‘‘یہ سُن کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ کاش!، کاش!! میں نے بھی اپنے ابو کے ساتھ ایسا ہی رویّہ اختیار کیا ہوتا، تو شاید وہ کچھ دن اور ہمارے ساتھ رہتے۔
میرے بیٹے اور پوتی نے سہارا دے کر صوفے پر بِٹھایا،پھر پوتی اپنی ڈرائنگ بُک لے آئی ۔ اُس نے مجھے دِکھایا کہ اُس کی ٹیچر نے ایک تصویر کی بہت تعریف کی تھی۔وہ تصویر اُسی دیوار کی تھی جس پر میرے ابو کی انگلیوں کے نشان تھے۔تصویر کے نیچے ٹیچر نے لکھا تھا۔کتنا اچھّا ہو کہ ہر بچّہ اپنے بزرگوں سے ایسی ہی محبّت کرے۔‘‘
میں اپنے کمرے میں گیا ،اپنے مرحوم والد کی یاد میں سِسکیاں لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا۔(تامل زبان کی ایک سچی سبق آموز روداد)
اختتامی پیغام : ہم میں سے ہم ایک کو بوڑھا ہونا ہے۔آج جو بزرگ ہمارے درمیان ہیں ، وہ کل کی محنت ، قربانی اور مشقّت کی زندہ مثال ہیں ۔ ان کے کمزور قدموں کو تمسخر نہیں ، سہارا چاہیے۔ ان کی لرزتی آواز کو خاموشی نہیں ، محبّت بھرا لہجہ چاہیے۔یادرکھیے ، جو محبّت ، عزّت اور برداشت ہم آج اپنے بزرگوں کو دیں گے ، کل کو وہی محبّت ، وہی عزّت ہمارے لئے ہماری اولاد کے دلوں میں پیدا ہوگی۔اگر آپ کے گھر میں کوئی بزرگ موجود ہے، تو آج ہی اُن کا ہاتھ تھام لیجیے ۔۔۔ کل شاید بہت دیر ہوجائے۔
رابطہ۔ 9330126756