مسعود محبوب خان
ہمارا دین ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے ،— چاہے وہ فرد کا باطن ہو یا معاشرت کا ظاہر، نجی تعلقات ہوں یا سماجی بندھن۔ اسی میں نکاح اور اس سے جڑے تمام مراحل شامل ہیں، جنہیں اسلام نے سادگی، پاکیزگی اور تقویٰ کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ مگر آج کے دور میں، جہاں دین کا شعور سطحی اور رسوم و رواج کی زنجیریں مضبوط ہو چکی ہیں، وہاں ہم نے نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو بھی ایک فیشن شو میں بدل دیا ہے اور اس میں ایسی ایسی بدعات داخل کر دی ہیں جو نہ صرف دین کی روح کے منافی ہیں بلکہ معاشرے میں بے حیائی، اسراف اور بے مقصد اختلاط کے دروازے بھی کھول دیتی ہیں۔ایسا محسوس ہورہا ہےجیسے ہم نے اپنے دین کو رسموں کے تابع بنادیا ہےاور ہماری
طرزِ زندگی،ہمارے رویےاور ہمارے معاشرتی معاملات قرآن و سنت کے بالکل برعکس ہوگئے ہیںاور کچھ ایسی تبدیلیاں بھی آئی ہیںجو روح ِ دین کے دامن کو تار تار کررہی ہیں۔ظاہر ہے کہ جو معاملات کبھی سادگی، وقار اور دینی اصولوں کے سائے میں سر انجام پاتے تھے، وہ اب فیشن، نمائش اور غیر شرعی اختلاط کا روپ دھار چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اب منگنی اور نکاح کی مجلسیں اور شادیوں کی تقریبات فلمی اندازہ میں ہی ہورہی ہیں۔اسلام نہ تو اسراف کا قائل ہے نہ اختلاطِ مرد و زن کا، نہ غیر ضروری نمائش کا۔ بلکہ وہ ہر قدم پر ہمیں تقویٰ، اعتدال اور حیاء کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔لیکن ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنی ہی بیٹیوں کی حیا کو بازارِ رسم و رواج میں نیلام کرتی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم منگنی،نکاح اور شادی جیسے معاملات میں ہر اُس شے کو خارج کریں جو شریعت سے متصادم ہے۔ ورنہ خدشہ ہے کہ ہماری خوشیاں بھی بے برکت ہوںاور ہماری نسلیں بھی بے سمتی کا شکارہوں گی۔ نکاح جو ایک پاکیزہ عبادت، ایک بابرکت بندھن اور سیرتِ محمدی ؐ کا مظہرِ کامل تھا، اُسے آج ہم نے محض ایک سماجی تقریب، ایک دنیاوی نمائش اور فیشن شو کی صورت دے دی ہے۔ موجودہ معاشرے میں نکاح کی تقاریب کو کرایے کے میرج ہالوں میں منعقد کرنا اور وہاں بے پردگی، موسیقی، رقص و سرود اور مخلوط نظام کو رواج دینا، کیا واقعی یہی ہے وہ نکاح جس کی تعلیم اللہ کے نبیؐ نے دی تھی؟ کیا یہی ہے وہ سادگی جس کی تلقین قرآن کرتا ہے؟ اور کیا یہی ہے وہ حیاء جسے ایمان کا جزو قرار دیا گیا؟نکاح صرف دو افراد کے درمیان معاہدہ نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان محبت، وفا اور اعتماد کا عہد ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس بابرکت عمل کو ایک ایسا ’’شو کیس‘‘ بنا دیا ہے جس میں روحِ دین ناپید اور ظاہری چمک دمک حاوی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے نکاح کو نہ صرف دنیاوی بنادیا ہے، بلکہ اسے غیر اسلامی روایات سے آلودہ بھی کر دیا ہے۔ مخلوط محفلوں میں بےحیائی کا جو سماں بندھتا ہے، وہ نہ صرف اسلامی اقدار کی نفی ہے بلکہ معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ جب حیا رخصت ہوتی ہے تو پھر برکت بھی اٹھا لی جاتی ہے اور یہ نکاح کا پیغام نہیں، اسلام کا انتباہ ہے۔اگر ہمیں اپنے گھروں میں سکون چاہیے، اپنی نسلوں میں پاکیزگی چاہیے اور اپنے معاشرے میں رحمت و برکت کا نزول چاہیے تو لازم ہے کہ ہم نکاح کو اُس صورت میں واپس لائیں جس کی تصویر رسولِ مکرمؐ نے ہمیں دکھائی تھی۔ اسلام ہمیں دکھاوے، اسراف اور مخلوط معاشرت کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا بلکہ وہ تو زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں تقویٰ، حیاء، سادگی اور اخلاص کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم نکاح کو بازارِ نفس نہیں، عبادت گاہِ روح بنائیں — جہاں دو دلوں کا نہیں، دو روحوں کا وصال ہو اور جہاں شیطان نہیں، رحمت کے فرشتے موجود ہوں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف ایسی رسموں سے کنارہ کشی کریں، بلکہ اس رویے کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کریں۔ دین کی عزّت، حیاء کی حفاظت اور ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم ایسی قبیح رسموں کا اجتماعی بائیکاٹ کریں اور امت کو دوبارہ اُس دین کی طرف پلٹائیں جو وقار، طہارت، سادگی اور برکت کا علمبردار ہے۔وقت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، اپنی خوشیوں کو شریعت کی حدود میں مقید کریں اور اُن پاکیزہ نمونوں کو اپنائیں جو ہمارے نبی مکرمؐ اور صحابہ کرامؓ نے اپنے عمل سے پیش کیے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]