ناصر منصور شاز
آج الحمدللہ، ایس کے آئی سی سی میں ایک بار پھر سے کتب میلہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ تقریباً ایک مہینہ قبل اس کی اطلاع ملی تھی کہ یہاں کتابوں کا میلہ لگنے والا ہے۔ یہ خبر سن کر دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تب سے ہی میں شدت سے منتظر تھا کہ جلد از جلد وہ دن آئے اور میں سنتور ہال میں داخل ہو کر باغِ کتب سے اپنی پسند کے گلاب چن سکوں۔
چودہ برس کی عمر سے مطالعہ کا شوقین رہا ہوں۔ جہاں کہیں بھی کوئی کتب خانہ یا اسٹال نظر آتا، کتابیں ضرور خریدتا۔ سولہ برس کی عمر میں، جب میں نے خود کمانا شروع کیا، اس وقت میری ماہانہ آمدنی سات سو روپے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس معمولی آمدنی میں بھی میں گھر کا خرچ چلاتا اور کتابیں خریدتا رہا۔ الحمدللہ، آج میرے پاس ایک معقول لائبریری ہے، جو تقریباً تین ہزار کتابوں پر مشتمل ہے۔
آج جب میں ایک قریبی دوست کے ساتھ کتب میلے میں گیا، تو اسکول سے آئے ہوئے بارہ تیرہ سال کے بچوں کو کتابیں خریدتے دیکھا، دل خوشی سے بھر گیا۔ یہ واقعی خوش آئند بات ہے کہ اس طرح کے مواقع سے بچوں کے دلوں میں مطالعے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ ایک صاحب نے کہا، ’’میں اپنے بچوں کو اس میلے میں اس لیے لایا ہوں تاکہ ان میں کتابوں سے محبت، شوق اور عادت پیدا ہو۔ یہ دراصل ایک روشن مستقبل کے بیج کی آبیاری ہے۔
ہمارے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اس پہلو پر توجہ دیں، اور اپنی اولاد کو کتب خانوں، علمی نشستوں اور سوشل سرگرمیوں میں لے جانے کی ترغیب دیں، تاکہ ان کے کردار و فکر کی مضبوط بنیاد رکھی جا سکے۔ جب ایسی روش جاری رہتی ہے، تو ایک نسل کے بعد دوسری نسل سنورتی چلی جاتی ہے۔
تین اگست کو میں وادی کشمیر کے معروف عالم دین اور مصنف، جناب غلام نبی کشافی صاحب کے ہمراہ ’’چنار بُک فیسٹیول‘‘ سرینگر پہنچا۔ وہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ خاص طور پر اتوار کے دن ہونے کے باوجود، پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا و طالبات کی اچھی خاصی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ ان اسکولوں کے اساتذہ قابلِ تحسین ہیں، جنہوں نے خود بھی شرکت کی اور قوم کے معمار ہونے کا ثبوت دیا۔
میلے میں داخل ہوتے ہی پہلا اسٹال ’’حرا بُک ڈپو (Hira Book Depot) کا نظر آیا۔ چند کتابیں خریدیں۔ دل چاہتا تھا کہ پورا اسٹال ہی گھر لے جاؤں، لیکن جیب اجازت نہیں دے رہی تھی۔ میں نے اسٹال کے منتظم سے خریداری اور فیسلیٹی کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا، پچھلے سال کے مقابلے میں اس بار خریداری کافی بہتر ہے۔
میں نے محسوس کیا کہ اس بار اسٹالوں کی تعداد میں پچھلے میلے کے مقابلے میں نصف سے بھی زیادہ کمی کی گئی ہے، اس لیے شاید اسٹال مالکان کو محسوس ہو رہا ہے کہ خریدار زیادہ ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتابوں سے دلچسپی رکھنے والے افراد بہت کم رہ گئے ہیں، جبکہ لہو و لعب اور فحش مواد کے دلدادہ افراد بڑھتے جا رہے ہیں۔
کتاب سے دوری نے معاشرے میں ’پڑھے لکھے جاہلوں‘ کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے اور لوگ منفی نفسیات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ دور یاد آتا ہے جب لوگ گلی کوچوں، دکانوں پر اخبارات پڑھا کرتے تھے، اخبار فروش سائیکل یا بغل میں اخباروں کا گچھا لے کر آواز لگاتے پھرتے تھے: اخبار! اخبار۔ مگر آج لوگ اخباروں کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کتب خانے بھی بند ہوتے جا رہے ہیں۔ ملینسن اسکول کے سامنے ایک پرانا کتب خانہ موجود تھا، جو آج بند ہے وجہ صرف کتابوں کی خریداری کا فقدان۔میں دانشور طبقے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس صورت حال کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں۔
بہرحال، ہم دیگر اسٹالز پر بھی گئے، کئی نئی کتابیں خریدیں۔ آخر میں مولانا وحیدالدین خانؒ صاحب سے منسلک اسٹال “Goodword” سے کچھ کتابیں خریدیں، تبادلہ خیال ہوا، اور ایک یادگار تصویر بھی لی گئی۔پچھلے میلے کی نسبت اس بار کھانے پینے کا انتظام بہتر تھا۔ اُمید ہے کہ آئندہ بھی ایسی سہولیات کا خیال رکھا جائے گا۔
آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گا: پڑھو پڑھو، لکھو لکھو۔پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے،لکھنے سے لکھنا آتا ہے۔
رابطہ۔9906871488
[email protected]>