عصر ِ حاضر کےجدید دور میں بھی ہم انسانی زندگی کی گذر بسر کے مختلف روپ دیکھ رہے ہیں،کوئی شاہانہ زندگی جی رہا ہے ، کوئی سڑک پر بھیک مانگ رہا ہے، کوئی غربت و افلاس میں دانے دانے کے لئے ترس رہا ہے،کوئی بیماریوں کی وجہ سے مایوس ہے اور کوئی اپنی صحت مندی پر نازاں ہے۔ اگرچہ ہم اس صورت حال کو قسمت کا کھیل سمجھتے ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ اگر کوئی کسان یا باغبان زمین میں بیج بوتا ہے، درخت لگاتا ہے، اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتا ہے،تو وہ بیج اُگتا ہے، پودا بن جاتا ہے تو پھر اُس کے پھل دار درخت بننے اورفائدہ مند فصل دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اسی طرح اگر ہم بحیثیت انسان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ابتداء سے ہی اپنے بچوں کی صحت، نشو ونُما،طرزِ زندگی اور معیار کی بہتری پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں تو ان میں یہ خوبیاں ضرورپروان چڑھیں گی کہ وہ عمربھر اپنی تندرستی و صحت مند نشوونما کا ثمرہ پا سکیں گے۔
بے شک خاندان کی آمدنی بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا ایک بڑا عنصر ہے۔انیسویں صدی کے وسط تک غریب ممالک میں بچوں کے صحت و بہبود کے لئے کوئی مخصوص سہولیات موجود نہیں تھیں، لیکن اب ترقی پذیر ملکوں میں بھی بچوں کی صحت اور معیار پر توجہ دینے کے لیے کئی سہولیات میسر ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے گلوبل چائلڈ ہیلتھ ایجنڈا پچھلی کئی دہائیوں سے 5 سال سے کم عمر بچوں کی صحت بقا ءکا اہم مرکز رہا ہے۔جس کے نتیجے میںپچھلی دو دہائیوںکے دوران عالمی سطح پر بچوں کی شرح اموات میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ہمارے ملک میں بھی صحت کے شعبےجہاں بچوں کی بہبودی کے لئےخاصاکردار ادا کررہے ہیں،وہیں بچوں چھوٹے بچوں کی نشوونما اور پائیدار صحت کے لئے منتخب اہداف کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔بے شک ایک محفوظ، صحت مند اور حفاظتی ماحول کو یقینی بنانے اورچھوٹے بچوں کی فلاح و بہبودی کے لئے والدین کو متحرک ہونا ضروری ہے۔یا درہے کہ نومبر 2024 کو ماہرین کے اسٹریٹجک اور ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کا جو ایجنڈا، ورلڈ بینک نے تیار کیا ہے،اُس میں بچوں کی بیماریوں کےعلاج و معالجہ کے انتظام کوبہتر بنایا گیا ہےاور صحت کی بنیادی خدمات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممالک کو امداد دے رہا ہے۔اس وقت بھی کم وسائل والے ممالک میں پہلی درجے کی صحت کی سہولیات جیسے کہ ریڈیولاجی اور لیبارٹری کی خدمات ابھی تک محدود ہیں،جس کے نتیجے میںبچوں کے صحت کے لئے بہترمعیار کی دیکھ بھال نہیں ہوپارہی ہے۔ نمونیا، اسہال، ملیریا، خسرہ اور غذائیت کی کمی، ایسے اجزا ہیں،جس کی دیکھ ریکھ کرنے والے کارکنوں کی مہارتوں کو مزید بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ والدین اور دیگر دیکھ بھال کرنے والے لوگ بچوں کی صحت مند نشوونما کے لیے سب سے فیصلہ کن عوامل ہوتے ہیں، جن کی کوششوں سے بچوںصحت، صلاحیت اور سماجی ہم آہنگی، زندگی بھر کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔بچوں کی بہتر نشوونما کے لئےبچوں کو مناسب غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصاً دودھ پلانا، ویکسینیشن کروانا اور بیماری کے دوران بروقت دیکھ بھال، بچے کی صحت مند نشوونما کے لئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ صاف ہوا، صاف پانی ، صفائی کے ساتھ ساتھ کھیل و تفریح کے لئے محفوظ جگہیں بھی بچوں کی نشو ونُما کو فروغ دیتے ہیں۔
اگر دیکھ بھال کرنے والے دور اندیش اور باشعور ہوںتو اس سے خاندان، برادری اور معاشرےکو فائدہ پہنچتا ہے۔کیونکہ اُن کی دیکھ بھال بچوں کی صحت مند نشو ونُما اور ذہنی تندرستی میں معاون ہوتی ہے۔البتہ بچے تب ہی صحت مند ہونگے جب انہیں ضروری غذائیںملیں۔ زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہےاور جسم کو صحت مند رکھنے کے لیےہر عمر میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر لوگوں کی ایک بڑی تعدادبچوں کومطلوبہ مقدار میں غذائیت فراہم نہیں کر پاتے ،جس کے باعث بیشتربچے لاغر یا معذورہوجاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بچوں کی صحت، صلاحیت اور تندرستی کی بنیاد بچپن میں ہی رکھی جا سکتی ہے۔اس لئےضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنےبچوں کی صحت کی دیکھ بھال کے معیار میں بہتری لائیںاور ہر حال میںسرکاری صحت مراکزسے فراہم ہونے والی سہولیات سے مستفید ہوجائیںاور بچوں کی صحت مند نشوونما کے ایسے بیج بوئیںجن سے وہ عمر بھر پھل دار درختوں کی طرح تناور رہ سکیں۔